یمن: فضائی حملے میں سو سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں، ریڈ کراس
1 ستمبر 2019
بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس کے مطابق یمن کے مقام ذمار میں کیے گئے حملے میں ایک سو سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یہ حملہ سعودی عسکری اتحاد نے حوثی ملیشیا کے زیر قبضہ علاقے میں کیا تھا۔
اشتہار
صنعاء سے ایک سو کلومیٹر کی دوری پر واقع شہر ذمار کی ایک عمارت پر کیے گئے حملے میں درجنوں ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کے فضائی حملوں میں پہلے پچاس سے زائد ہلاکتوں کا بتایا گیا تھا لیکن ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی برائے ریڈ کراس نے ہلاکتوں کی تعداد ایک سو سے زائد ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
بین الاقوامی ریڈ کراس نے اس خدشے کا اظہار خدشہ عمارت کے ملبے کو ہٹانے کے عمل کے دوران ملنے والی نعشوں کے تناظر میں کیا ہے۔ حوثی ملیشیا کے ٹیلی وژن المصیرہ کے مطابق ان حملوں میں ایک جیل کو نشانہ بنایا گیا جس سے کئی قیدیوں کی ہلاکت ہوئی۔ اتوار کی صبح المصیرہ ٹی وی نے رپورٹ کیا تھا کہ ملبہ ہٹانے کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک چالیس سے زائد لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد نے آج اتوار کو یمن میں حوثی باغیوں کے ایک ٹھکانے پر فضائی حملے کیے ہیں۔ سعودی ٹیلی وژن کے مطابق حملوں کا ہدف ذمار کے مقام پر قائم ڈرونز اور میزائل کا ایک بڑا گودام تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق نصف ذمار میں درجن کے قریب حملے کیے گئے تھے۔
عینی شاہدین نے یہ بھی بتایا کہ سعودی عسکری اتحاد کی جانب سے جس عمارت پر حملہ کیا گیا، وہ تین منزلہ عمارت ہے اور حوثی ملیشیا اسے حراستی مرکز کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ جس وقت حملہ کیا گیا، اُس وقت بھی کئی قیدی اس عمارت میں موجود تھے۔
ع ح / ش ح (اے پی، اے ایف پی)
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔