یمن: متحارب فریقوں نے دو ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کر لیا
3 اگست 2022
یمن کی حکومت اور حوثی باغیوں نے ایک بار پھر سے آخری لمحات میں جنگ بندی کی تجدید کر لی۔ تاہم اس معاہدے میں ایسے اقدامات کو مزید وسعت دینے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔
اشتہار
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے دو اگست منگل کے روز بتایا کہ یمن میں طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی میں ملوث فریقین نے مزید دو ماہ کے لیے جنگ بندی کی توسیع پر اتفاق کر لیا ہے۔
سعودی عرب کی حمایت یافتہ یمنی حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے رمضان سے قبل پہلی بار اپریل کے اوائل میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، اور اس طرح مہینوں سے جاری جنگ بندی کی وجہ سے ملک نے امن کا احساس کیا ہے۔ گزشتہ سات برسوں سے جاری تنازعے کے دوران نسبتاً پرسکون رہنے کا یہ پہلا طویل ترین دور ہے۔
منگل کو جنگ بندی میں توسیع اس کی میعاد ختم ہونے سے محض چندگھنٹے قبل ہی مکمل ہو سکی، جو اب کم از کم دواکتوبر تک چلے گی۔
اقوام متحدہ کے ایلچی ہینس گرنڈبرگ نے ایک بیان میں کہا، ''اس جنگ بندی کی توسیع میں، فریقین کے درمیان جنگ بندی معاہدے کو آگے بڑھانے پر جلد از جلد بات چیت شروع کرنے کا عمل بھی شامل ہے۔''
اشتہار
جنگ بندی کے اچھے اثرات
جزیرہ نما عرب کے کنارے واقع بنجر اور پہاڑوں پر مشتمل یمن ملک کے دارالحکومت صنعا پر سن 2014 میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا، اس وقت سے یہ ملک منتخب حکومت اور حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں کے درمیان منقسم ہے۔
اس تنازعے نے ایک ایسے انسانی بحران کو جنم دیا جس کی وجہ سے چالیس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوگئے ہیں اور تقریبا ًدو کروڑ کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔
ناروے کے ایک ادارے 'رفیوجی کونسل' کے اندازوں کے مطابق جنگ بندی کے دوران پہلے مہینوں کے مقابلے میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں نصف کمی واقع ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے میں صنعا کے ہوائی اڈے کو دوبارہ کھولنے جیسے کچھ اہم اقدامات بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایلچی چاہتے تھے کہ جنگ بندی معاہدے میں طویل تر وسعت کے ساتھ ہی کچھ اور اہم نکات کو بھی شامل کیا جائے، تاہم فریقین کے درمیان عدم اعتماد کی کمی ہے جس کی وجہ سے اس پر عمل درآمد ہی ایک چیلنج بن چکا ہے۔
جنگ بندی کی بین الاقوامی حمایت
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ترجمان اسٹیفن دوجارک کا کہنا کہ انہوں نے جنگ بندی میں توسیع کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم اس مثبت پیش رفت کا بہت بہت خیر مقدم کرتے ہیں۔ یمن کے عوام ایک پرامن ملک کے مستحق ہیں۔''
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی توسیع کو ایک مثبت قدم قرار دیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ امن کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''جب پچھلی بار جنگ بندی میں توسیع کی گئی تھی اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ جان بچانے کے لیے یہ ایک اہم قدم ہے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ طویل مدت کے لیے جنگ بندی ہی کوئی بہت کافی اقدام نہیں ہے۔''
دونوں فریقوں کے ساتھ بات چیت میں امریکی حکام اور ہمسایہ ملک عمان کے نمائندوں کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے ایلچی بھی اس میں شامل تھے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اتوار کے روز یمن کی صدارتی حکومت کے سربراہ راشد العلیمی سے بات کی تھی تاکہ جنگ بندی کی تجدید کے لیے وہ اپنی حمایت کا اظہار کر سکیں۔
حوثی اور یمنی حکومت دونوں ایک دوسرے پر جنگ بندی کے معاہدے کی مکمل پاسداری نہ کرنے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ گرنڈبرگ نے کہا، '' میں آنے والے ہفتوں میں، فریقین کے ساتھ اپنی مصروفیات کو مزید تیز کروں گا تاکہ جنگ بندی میں فریقین کی تمام ذمہ داریوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔''
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
یمن: امدادی تنظیموں کے وسائل ختم ہو رہے ہیں
یمنی جنگ جاری ہے۔ مقامی افراد بیرونی امداد کے ذریعے زندگی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امدادی تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
امداد میں کمی
یمن میں انسانی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ یمن کے تیرہ ملین افراد فاقے کی دہلیز پر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری خانہ جنگی اور امداد میں کمی ہے۔
تصویر: Khaled Ziad/AFP/Getty Images
امداد پر انحصار
کووڈ انیس کے بعد سے دنیا میں بے شمار افراد کو خوراک کی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ یمن ایک انتہائی محروم ملک ہے جہاں چالیس فیصد آبادی کا انحصار ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔
تصویر: Khaled Abdullah/REUTERS
پیسے ختم رہے ہیں
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس ملک میں تیس ملین میں سے تیرہ ملین افراد کے پاس کھانا پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے ایسے مخدوش مالی حالات میں بچوں کو کیسے اور کیوں کر بچا سکتے ہیں۔
تصویر: Giles Clarke/UNOCHA/picture alliance
نامکمل امدادی پیکجز
اس وقت صرف ان فاقہ کش افراد کے مرنے کا امکان ہے، جنہیں پورا راشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر کیرولین فلائشر کا کہنا ہے ضرورت دو بلین کی ہے اور جو عطیات ملتے ہیں وہ صرف اس رقم کا اٹھارہ فیصد ہیں۔
تصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
یوکرینی جنگ نے صورت حال کو ابتر کر دیا
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنازعات میں گھرے علاقوں میں امدادی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام امدادی گندم کا نصف یوکرین سے حاصل کرتا تھا اور جنگ کے شروع ہونے سے قبل قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کا بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے قحط کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: AHMAD AL-BASHA/AFP/Getty Images
خونریز خانہ جنگی
یمن میں گزشتہ سات برسوں سے خونریز خانہ جنگی جاری ہے اور اس میں علاقائی ریاستوں کا کردار بھی ہے۔ سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مخلوط عسکری اتحاد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ حوثی ملیشیا اس وقت بھی دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول رکھتی ہے۔
تصویر: imago images/Xinhua
عدن میں افراتفری
سن 2020 سے یمن کے جنوبی شہر عدن کا کنڑول علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک نوعیت کا شہر ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنمی حکومت کا آخری ٹھکانا بھی ہے۔ اس شہر میں دہشت گرد گروپ پوری طرح فعال ہیں۔ تصویر سن 2021کے ایک حملے کی ہے، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Wael Qubady/AP Photo/picture alliance
کوئی شیلٹر نہیں
تیل کی دولت سے مالامال یمنی علاقے مارب کو انتہائی شدید خراب حالات کا سامنا ہے۔ شمال میں یہ عدن حکومت کے زیرِ کنٹرول آخری شہر ہے۔ اس شہر میں جنگی حالات چھائے ہوئے ہیں۔ مارب علاقے پر سعودی جنگی طیارے بمباری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: AFP /Getty Images
ہسپتال بھرے ہوئے ہیں
ہیلتھ کیئر کی صورت حال یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کے مریض بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں حالات میں تبدیلی کی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: Abdulnasser Alseddik/AA/picture alliance
اسکول بھی بمباری سے تباہ
سن 2021 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جنگی حالات نے تعلیمی سلسلے کو بھی انتہائی برے انداز میں متاثر کر رکھا ہے۔ بیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بمباری سے بے شمار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Mohammed Al-Wafi /AA/picture alliance
بیچارگی و پریشانی
بجلی، صاف پانی، پٹرول اور اسی طرح کی کئی اشیاء یمن میں دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پر قطاریں مسلسل لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ امداد کے لیے فنڈ نہیں رہے اور بے چارگی اور پریشانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔