یمن مظاہروں میں چھبیس ہلاک، حزب اختلاف میں اتفاق رائے نہ ہو سکا
19 ستمبر 2011فائرنگ اس وقت شروع ہوئی جب ہزاروں مظاہرین ’تبدیلی چوک‘ سے شہر کے مرکز کی جانب بڑھ رہے تھے۔ دارالحکومت کے ایک فیلڈ ہسپتال کے ڈاکٹر طارق نعمان نے چھبیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی۔ دارالحکومت میں رات بھر فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں اور مظاہرین نے کہا ہے کہ وہ پیر کی صبح بھی اپنے مظاہرے جاری رکھیں گے۔ طبی اہلکاروں کا تخمینہ ہے کہ چھتیس زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ یمن کی وزارت داخلہ نے الزام لگایا کہ مظاہرین کے حملوں میں چار سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ انہوں نے مظاہرین پر پٹرول بم پھینکنے اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کا الزام بھی لگایا۔
ادھر، اتوار کو یمن کے مختلف سیاسی دھڑوں میں خلیجی تعاون کونسل کے پیش کردہ انتقال اقتدار کے منصوبے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ صدر صالح کی برسر اقتدار جنرل پیپلز کانگریس پارٹی کے ترجمان طارق الشامی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’بحران کو حل کرنے کے لیے ہمیں حزب اختلاف کے ساتھ منصوبے پر عملدر آمد کے طریقہ کار پر اتفاق کرنا ہوگا۔ اسی لیے حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات ضروری ہیں۔‘‘ حزب اختلاف کا مطالبہ رہا ہے کہ صدر اس معاہدے پر عملدر آمد کے طریقوں پر تبادلہ خیال سے قبل اس پر دستخط کر دیں۔
حزب اختلاف کے ایک اہم رہنما سلطان الاطوانی نے کہا، ’’انتقال اقتدار سے قبل مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
صدر صالح گزشتہ تین ماہ سے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور انہوں نے نائب صدر منصور ہادی کو حزب اختلاف کے ساتھ انتقال اقتدار کے منصوبے پر مذاکرات کا اختیار دیا ہے۔
ہفتے کو سعودی عرب کے ایک اعلٰی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ہادی ایک ہفتے کے اندر اس منصوبے پر دستخط کر دیں گے۔ خلیجی تعاون کونسل کے منصوبے میں صالح سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں اور تمام اختیارات منصور ہادی کو منتقل کر دیں۔ اس کے عوض انہیں اور ان کے خاندان کو قانونی کارروائی سے استثناء فراہم کیا جائے گا۔
صدر صالح کے اقتدار کے خلاف جاری مظاہروں کو نو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور بین الاقوامی برادری کو خدشہ ہے کہ اگر یمن میں سیاسی نظام بالکل تحلیل ہو گیا تو القاعدہ کے عسکریت پسند ملک پر چڑھ دوڑیں گے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: شادی خان سیف