یمن: مہاجرین حراستی مرکز میں آگ لگنے سے متعدد افراد ہلاک
8 مارچ 2021
خلیجی ملکوں میں ملازمت کی متلاشی متعدد افراد یمن میں ایک مہاجر حراستی مرکز میں بھیانک آگ لگنے سے ہلاک ہو گئے۔
اشتہار
مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ یمنی دارالحکومت صنعا میں اتوار کے روز مہاجرین کے ایک حراستی مرکز میں آگ لگنے سے کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور 170 سے زائد دیگر زخمی ہو گئے۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ حوثی باغیوں کے زیر انتظام اس مرکز میں آگ کس طرح لگی۔
اقوام متحدہ کی مہاجرین ایجنسی (آئی او ایم) کی ڈائریکٹر کارمیلا گوڈیو نے ٹوئٹر پر لکھا ”یمن کے صنعا شہر میں ایک حراستی مرکز میں آگ لگنے کے نتیجے میں مہاجرین اور محافظوں کی موت پر انتہائی افسوس ہے۔“
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ گوکہ آٹھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے تاہم ”مرنے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے۔“
یمن میں مہاجرین متعدد خطرات سے دو چار
اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ آگ ایک سائبان سے شروع ہوئی جس کے قریب ہی 700 سے زائد مہاجرین کو قید میں رکھا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر کو شمالی صوبے صعدہ میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ سرحد پار کر کے سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
یمن میں جاری تصادم کے باوجود لاکھوں مہاجرین گھریلو ملازم، تعمیراتی مزدور اور نوکر کے طور پر کام کی تلاش میں قرن افریقہ کے دشوار گزار راستوں کا سفر کرکے اور دریاوں کو عبور کرکے تیل سے مالا مال خلیجی ملکوں میں پہنچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ مہاجرین ایجنسی (آئی او ایم) کی ڈائریکٹر کارمیلا گوڈیو نے لکھا ہے کہ اتوار کے روز لگنے والی آگ ”ان بہت سے خطرات میں سے محض ایک ہے جو گزشتہ چھ برسوں سے یمن میں جاری بحران کی وجہ سے مہاجرین کو درپیش ہیں۔ تمام افراد، بشمول مہاجرین کی تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔“
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
7 تصاویر1 | 7
بہتر زندگی کی تلاش میں موت کا سامنا
سن 2019 میں تقریباً 138000 افراد نے یمن کا سفر کیا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے سن 2020 میں یہ تعداد گھٹ کر 37000 رہ گئی۔
مہاجرین بردہ فروش گروہوں کا اکثر شکار بن جاتے ہیں۔ بتایاجاتا ہے کہ ان میں سے بہت سے گروہوں کو علاقائی تصادم میں ملوث مسلح گروپوں کی حمایت اور تعاون حاصل ہے۔
مارچ کے اوائل میں کم از کم 20 مہاجرین اس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب جبوتی سے یمن جانے والی ایک گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی کشتی پر سوار 80 مہاجرین کو اسمگلروں نے دریا میں پھینک دیا تھا۔
یمن، ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور سعودی حمایت یافتہ حکومت کے درمیان 2014 سے ہی تباہ کن تصادم کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، ڈی پی اے)
یمن، امن کی ترویج آرٹ سے
یمن میں ایک اسٹریٹ آرٹسٹ نے صنعا کے مقامی رہائشیوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ گلیوں میں اپنی مرضی کی تصاوير بنائیں، موضوع لیکن یمن کے خانہ جنگی اور شورش ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Gateau
شعور و آگہی
مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے دس شہروں میں ’اوپن ڈے فار آرٹ‘ کے موقع پر مراد سوبے نامی مصور کی جانب سے منعقدہ گلیوں میں تصویری اظہار کے ایونٹ میں مقامی لوگ شریک ہوئے اور انہوں نے اس کاوش کا خیر مقدم کیا۔ گلیوں میں تصاویر بنانے کے اس عمل میں ہر عمر کے مصور اور طالب علم یمن میں امن کی ترویج کے لیے شعور و آگہی پھیلا رہے ہیں۔
تصویر: Najeeb Subay
امن کا پیغام
اس ایونٹ کے بعد، جو ایک ہی وقت میں یمن کے چھ مختلف علاقوں بہ شمول مارب شہر میں منعقد ہوا، مراد سوبے نے کہا، ’’اس ایونٹ کا پیغام نہایت سادہ ہے۔ اس میں حصہ لینے والے ایک امید کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ملک کے اس انتہائی مشکل دور میں کیا محسوس کر رہے ہیں۔ یہ اقدام امن کی ترویج سے بھی عبارت ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں اس تصویری نمائش میں سو سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایونٹ کے منتظم من ہی لیز، جو خود بھی کوریائی جنگ کا حصہ رہے، نے کہا کہ نمائش دیکھنے آنے والوں پر ان تصاویر کا نہایت مثبت اثر ہوا۔ ’’امن کبھی کسی ایک شخص کی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر مراد اور ہماری ملاقات سے ہم نے یہ سیکھا کہ دل جنگ سے نفرت کریں تو امن کے قریب آ جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Heavenly Culture/World Peace/Restoration of Light Organization
بھرپور تعاون
تعز شہر میں اس نمائش میں مقامی افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دیگر یمنی شہروں کی طرح یہاں بھی ایسا ایک ایونٹ رکھا گیا تھا۔ عدن اور حدیدہ میں بھی ایسی ہی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ یمنی تنازعے کو خطے کے ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ بھی قرار ديتے ہيں۔ اس جنگ میں پانچ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Odina for Artistic Production
ایک گہرا پیغام
مصور صفا احمد نے مدغاسکر کے دارالحکومت انتاناناریوو میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں بچوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی محسوسات کا تصویری اظہار کریں۔ یہ وہ بچے تھے، جو اپنے ماں باپ کھو چکے تھے۔ اس طرح ایک نہایت گہرا اور دل کو چھو لینے والا پیغام دیا گیا۔
تصویر: Raissa Firdaws
ایک مسکراہٹ بھی
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں یمنی اسٹونٹ یونین کی مدد سے کلچرل ڈائورسٹی آرگنائزیشن نامی تنظیم نے ورلڈ کلچر اوپن کے نام سے ایک تقریب منعقد کی۔
تصویر: Yemeni Student Union/World Culture Open
تعریف پیرس سے بھی
پیرس میں قریب 25 افراد نے اس مہم کے تحت ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس تقریب کی آرگنائز خدیجہ السلامی، جو خود ایک فلم ساز ہیں، نے بتایا کہ وہ کیوں اس مہم میں شامل ہوئیں۔ ’’یہ بہت اہم تھا کہ مراد کے ساتھ مل کر یمنی شہریوں کو درپیش مشکلات اور پریشانیوں کو تصویری شکل میں دنیا کے سامنے لایا جائے۔‘‘
تصویر: Khadija Al-Salami
امن کی مہم پھیلتی ہوئی
مراد کی یہ آرٹ مہم بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوتی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت جنگ کے عام شہریوں پر پڑنے والے اثرات، جبری گم شدگیوں، ہیضے کی وبا اور ڈرون حملوں جیسے امور کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ آئندہ مہنیوں میں کینیڈا، امریکا اور جبوتی تک میں اس مہم کے تحت تصویری نمائشیں اور تقاریب منعقد کی جائیں گی۔