یمن میں اقتدار کی منتقلی کا سمجھوتہ جلد متوقع
27 اپریل 2011ایک یمنی حکومتی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’یمنی حکومت اور اپوزیشن کے وفود آئندہ پیر کو ریاض میں ایک سمجھوتے پر دستخط کریں گے‘‘۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کی جانب سے اِس امر کی تصدیق کر دی گئی ہے کہ اُن کے نمائندے بدھ کو سعودی دارالحکومت ریاض جا رہے ہیں۔
چھ ممالک پر مشتمل خلیجی تعاون کونسل GCC کی ثالثی میں طے پانے والے اِس سمجھوتے کا بنیادی مقصد صدر علی عبد اللہ صالح کی اقتدار سے رخصتی اور اِس ملک میں جاری بد امنی کا خاتمہ ہے۔ واضح رہے کہ صدر صالح 1978ء سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے ہیں اور اُن کے اِس طویل دَورِ حکومت کے خاتمے کے لیے گزشتہ تین ماہ سے جاری پُر تشدد مظاہروں میں اب تک 130 سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔
اپوزیشن رہنما محمد باسندوہ نے بتایا کہ خلیجی تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل عبدالطیف الزیانی بدھ کو یمنی دارالحکومت صنعاء کا دورہ کرنے والے ہیں اور وہ اپنے ساتھ اگلے ہفتے سعودی دارالحکومت ریاض میں سمجھوتے پر دستخطوں کی تقریب کی دعوت لے کر آئیں گے۔ محمد باسندوہ یمن میں قائم ہونے والی آئندہ ممکنہ عبوری حکومت کی قیادت کے سرکردہ ترین امیدواروں میں سے ایک ہیں۔
واشنگٹن اور یمن کے بڑے ہمسایے سعودی عرب کو خدشہ ہے کہ یمن میں مزید خونریزی اِس ملک میں قائم القاعدہ کے لیے اِس خطّے میں سرگرمِ عمل ہونے کے مزید امکانات پیدا کر دے گی۔ جس سمجھوتے پر آئندہ پیر کو سعودی دارالحکومت میں دستخط ہوں گے، اُس کے تحت صدر صالح کو تیس روز کے اندر اندر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے کہا جائے گا۔
ایک بیان میں خلیجی تعاون کونسل کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اِس کونسل کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس آئندہ اتوار کو ریاض میں ہو گا، جس میں اِس سمجھوتے سے متعلق حتمی تفصیلات طے کی جائیں گی۔
یمن عرب جزیرہ نما کا غریب ترین ملک ہے، جس کی آبادی 23 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے بیشتر عوام دو ڈالر روزانہ سے بھی کم پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ایک تہائی شہریوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل