یمن میں القاعدہ کے قبضے کا خطرہ ہے، امریکہ
5 اپریل 2011امریکی حکومت کی جانب سے یمن میں اپنے حلیف صدر علی عباللہ صالح کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے کے واضح اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کیرنی نےکہا ہے کہ امریکہ کو اس بات کی تشویش ہے کہ یمن میں جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے وہاں جو خلاء پیدا ہو رہا ہے اس سے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
قبل ازیں پیرکے روز یمن میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سترہ مزید مظاہرین کے ہلاک ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
کیرنی کے مطابق: ’یہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی مذاکرات پر زور دے رہے ہیں تاکہ صدر صالح کی اقتدار سے بے دخلی کا ٹائم ٹیبل طے کیا جا سکے‘۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے یمن کی صورتِ حال پر تبصرہ امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اوباما انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے ساتھی صدر صالح سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کردی ہے اور یہ کہ صدر صالح ملک میں اصلاحات نہیں کر سکتے۔ واضح رہے کہ صدر صالح ملک میں القاعدہ کے خلاف کارروائی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
اوباما انتظامیہ کی کوشش ہے کہ صدر صالح اقتدار ایک عبوری حکومت کے حوالے کردیں جوکہ نائب صدر کے ہاتھ میں ہو۔ اس ضمن میں امریکی حکومت سعودی عرب کی خدمات بھی حاصل کر رہی ہے۔
پیر کے روز یمن میں دارالحکومت صنعاء کے جنوب میں واقع شہر تعز میں سکیورٹی فورسز اور حکومت مخالف مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ خبررساں اداروں کے مطابق اس موقع پر سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین پر فائر کھول دیا، جس کے نتیجے میں17 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
خبررساں ادارے روئٹز کا کہنا ہے کہ سینکڑوں افراد زخمی ہیں، جن میں سے بیشتر آنسو گیس سے متاثر ہوئے ہیں۔ 30 افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 16 کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
یمن میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جنوری سے جاری ہے۔ وہاں اب تک ایک سو سے زائد مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق