یمن میں جنگ کے پانچ سال، اختتام دور دور تک نظر نہیں آتا
25 مارچ 2020
یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں اور سعودی عسکری اتحاد کے مابین جاری جنگ کا کوئی حل نظرنہیں آ رہا۔ ماہرین کے مطابق جنگ اور قحط سالی کی وجہ سے اب ماضی جیسا یمن دوبارہ وجود میں نہیں آ سکتا۔
اشتہار
چھبیس مارچ دو ہزار پندرہ کو سعودی جنگی طیاروں نے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کو پہلی مرتبہ نشانہ بنایا تھا۔ اس دن امریکا میں تعینات سعودی سفیر عبدالجبیر نے کہا تھا، "سعودی عسکری اتحاد یمن کی جائز حکومت کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے ہر وہ اقدام کرے گا، جوضروری ہوا۔” اس وقت ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی دشمن پر قابو پا لیں گے۔ یمنپھندہثابتہواہے
لیکن پانچ برس بعد یہ جنگ موت اور تباہی سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد افرادہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں بارہ ہزار سے زائد عام شہری بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ اس جنگ کی وجہ سے یمن میں پیدا ہونے والے بحران کو دنیا کا بدترین المیہ قرار دے چکی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف قحط سالی کی وجہ سے اس ملک میں تقریبا پچاسی ہزارافراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر اس ملک میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی تو اس ملک کا نظام صحت بھی مکمل طور پر تباہ ہو جانے کاخدشہ ہے اور ہلاکتیں "لامحدود” ہوں گی۔
اس جنگ، قحط سالی اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے سعودی عرب کا بیرون ملک تشخص بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔واشنگٹن میں عرب گلف اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ریسرچرحسین ایبش کا کہنا ہے، "میرے خیال سے یہ کہنا بہتر ہو گا کہ سعودی عرب اس پھندے میں پھنس چکا ہے۔،،
ان کا مزید کہنا تھا، "انہیں اس جنگ سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا لیکن وہ اسے بند کرنا بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔”
اسٹریٹیجک تبدیلیاں
اصل میں اس جنگ کا مقصد ہادی حکومت کی حفاظت کرنا تھا تاکہ سعودی مفادات کی حفاظت ہوسکے لیکن اب یہ جنگ بالکل مختلف شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہاں تک کہ ایران کا یمن میں اثرورسوخ کم کرنے کی کوشش بھی اس کے بالکل برعکس ثابت ہوئی ہے۔
اس سال کے آغاز سے ایران کے لیے ہمدردیاں رکھنے والے حوثی باغیوں نے سعودی سرحد کے قریب بہت سے یمنی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب جنگی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب ریاض حکومت کی ترجیح یہ نہیں رہی کہ وہ یمن کی "جائز حکومت” کو بحال کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ شروع میں اعلان کیا گیا تھا۔ بلکہ اب سعودی عرب اپنی جنوبی سرحد کی حفاظت میں مصروف ہو چکا ہے اور ان مقامی قبائل اورگروپوں کی حفاظت چاہتا ہے، جو یمن میں اس کے اتحادی ہیں۔ خاتمہ نظر نہیں آ رہا
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا مشکل نظر آتا ہے کہ مستقبل قریب میں یمن کی صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی آئے۔ اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ بہت سے تجزیہ کار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ یمن کا مستقبل کیا ہو گا؟
امریکن انٹرپرائزر انسٹی ٹیوٹ میں بطور مشیر کام کرنے والی کیتھرینے سمرمان کا کہنا ہے، "قومی سطح پر کوئی سیاسی حل مشکل نظر آتا ہے اور موجودہ محاذ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اب یمن کے پاس معمول کی جانب واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا اور یہ ماضی کی طرح کبھی بھی نہیں ہو گا۔ اب صرف یہ طے پائے گا کہ یہ مستقبل میں کیسا ہو گا؟‘‘
یمن، امن کی ترویج آرٹ سے
یمن میں ایک اسٹریٹ آرٹسٹ نے صنعا کے مقامی رہائشیوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ گلیوں میں اپنی مرضی کی تصاوير بنائیں، موضوع لیکن یمن کے خانہ جنگی اور شورش ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Gateau
شعور و آگہی
مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے دس شہروں میں ’اوپن ڈے فار آرٹ‘ کے موقع پر مراد سوبے نامی مصور کی جانب سے منعقدہ گلیوں میں تصویری اظہار کے ایونٹ میں مقامی لوگ شریک ہوئے اور انہوں نے اس کاوش کا خیر مقدم کیا۔ گلیوں میں تصاویر بنانے کے اس عمل میں ہر عمر کے مصور اور طالب علم یمن میں امن کی ترویج کے لیے شعور و آگہی پھیلا رہے ہیں۔
تصویر: Najeeb Subay
امن کا پیغام
اس ایونٹ کے بعد، جو ایک ہی وقت میں یمن کے چھ مختلف علاقوں بہ شمول مارب شہر میں منعقد ہوا، مراد سوبے نے کہا، ’’اس ایونٹ کا پیغام نہایت سادہ ہے۔ اس میں حصہ لینے والے ایک امید کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ملک کے اس انتہائی مشکل دور میں کیا محسوس کر رہے ہیں۔ یہ اقدام امن کی ترویج سے بھی عبارت ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں اس تصویری نمائش میں سو سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایونٹ کے منتظم من ہی لیز، جو خود بھی کوریائی جنگ کا حصہ رہے، نے کہا کہ نمائش دیکھنے آنے والوں پر ان تصاویر کا نہایت مثبت اثر ہوا۔ ’’امن کبھی کسی ایک شخص کی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر مراد اور ہماری ملاقات سے ہم نے یہ سیکھا کہ دل جنگ سے نفرت کریں تو امن کے قریب آ جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Heavenly Culture/World Peace/Restoration of Light Organization
بھرپور تعاون
تعز شہر میں اس نمائش میں مقامی افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دیگر یمنی شہروں کی طرح یہاں بھی ایسا ایک ایونٹ رکھا گیا تھا۔ عدن اور حدیدہ میں بھی ایسی ہی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ یمنی تنازعے کو خطے کے ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ بھی قرار ديتے ہيں۔ اس جنگ میں پانچ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Odina for Artistic Production
ایک گہرا پیغام
مصور صفا احمد نے مدغاسکر کے دارالحکومت انتاناناریوو میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں بچوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی محسوسات کا تصویری اظہار کریں۔ یہ وہ بچے تھے، جو اپنے ماں باپ کھو چکے تھے۔ اس طرح ایک نہایت گہرا اور دل کو چھو لینے والا پیغام دیا گیا۔
تصویر: Raissa Firdaws
ایک مسکراہٹ بھی
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں یمنی اسٹونٹ یونین کی مدد سے کلچرل ڈائورسٹی آرگنائزیشن نامی تنظیم نے ورلڈ کلچر اوپن کے نام سے ایک تقریب منعقد کی۔
تصویر: Yemeni Student Union/World Culture Open
تعریف پیرس سے بھی
پیرس میں قریب 25 افراد نے اس مہم کے تحت ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس تقریب کی آرگنائز خدیجہ السلامی، جو خود ایک فلم ساز ہیں، نے بتایا کہ وہ کیوں اس مہم میں شامل ہوئیں۔ ’’یہ بہت اہم تھا کہ مراد کے ساتھ مل کر یمنی شہریوں کو درپیش مشکلات اور پریشانیوں کو تصویری شکل میں دنیا کے سامنے لایا جائے۔‘‘
تصویر: Khadija Al-Salami
امن کی مہم پھیلتی ہوئی
مراد کی یہ آرٹ مہم بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوتی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت جنگ کے عام شہریوں پر پڑنے والے اثرات، جبری گم شدگیوں، ہیضے کی وبا اور ڈرون حملوں جیسے امور کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ آئندہ مہنیوں میں کینیڈا، امریکا اور جبوتی تک میں اس مہم کے تحت تصویری نمائشیں اور تقاریب منعقد کی جائیں گی۔