یمن میں حوثی تحریک کی حمایت جاری رکھیں گے، خامنہ ای
14 اگست 2019
ایرانی مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے یمن میں حوثی باغیوں کی تحریک کی حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے یہ بات حوثی تحریک کے ایک اعلیٰ نمائندے سے ملاقات کے بعد کہی، جو سرکاری ٹیلی وژن پر نشر بھی کی گئی۔
اشتہار
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اُن کا ملک یمن میں حوثی تحریک کی حمایت بدستور جاری رکھے گا۔ انہوں نے یمن اور وہاں کے شہریوں کے تحفظ کے لیے مذاکراتی عمل کو اہم قرار دیا۔ یمن میں جاری جنگی کے تناظر میں خامنہ ای کے اس بیان کو غیرمعمولی قرار دیا گیا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹیلی وژن سے سپریم لیڈر کا نشر کیا جانے والا یہ بیان یمنی حوثی تحریک کے اعلیٰ مذاکرات کار اور باغیوں کے ترجمان محمد عبدالسلام سے ملاقات کے بعد دیا گیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ یمن کی عسکری و سیاسی تحریک کے کسی اہم نمائندے سے ایرانی سپریم لیڈر نے ملاقات کی ہے۔
اس حوثی لیڈر کے ساتھ ملاقات میں خامنہ ای نے اس اعتماد کا اظہار بھی کیا کہ یمن میں حوثی تحریک ہی ایک مضبوط حکومت قائم کر سکتی ہے۔ ایرانی لیڈر نے اس تحریک پر زور دیا کہ وہ اُس مبینہ سعودی منصوبے کے خلاف پرزور مزاحمت کرے جس کا مقصد یمن کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔
اس بیان میں خامنہ ای نے کہا کہ ایک متحد، منظم و مربوط اور با اختیار یمن خطے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ ایرانی لیڈر نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ ایک متحد اور مستحکم یمن میں مذہبی اور نسلی تنوع سے داخلی انضمام و استحکام ممکن ہے۔ انہوں نے داخلی مذاکرات کو یمن کی سالمیت کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔
یہ امر اہم ہے کہ یمن کے شمالی حصے بشمول صنعاء پر حوثی باغیوں کا تسلط ہے جب کہ جنوبی حصے پر سعودی عسکری اتحاد کی حامی ملیشیا اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر منصور ہادی کی حکومتی فوج کو کنٹرول حاصل ہے۔
امریکا سمیت سعودی عرب اور خلیج فارس کی دوسری عرب ریاستیں ایران پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ یمن کی حوثی تحریک کے مسلح باغیوں کی ہر ممکن طریقے سے حمایت و امداد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری جانب ایران کی مذہبی قیادت اس کی تردید کرتی ہے اور سعودی حکومت کو یمن کے داخلی بحران کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔
ع ح، م م ⁄ روئٹرز، اے ایف پی
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔