’یمن میں حکومتی کنٹرول والے علاقوں میں غذائی قلت میں اضافہ‘
18 اگست 2024
اقوام متحدہ کے غذائی تحفظ کے ماہرین نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ یمن میں حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں غذائی قلت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے غذائی تحفظ کے ماہرین کی جانب سے آج اتوار 18 اگست کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق بحیرہ احمر کے ساحلی علاقوں میں سب سے زیادہ سنگین کیسز سامنے آئے ہیں۔
سعودی حمایت یافتہ حکومت اور ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے درمیان کئی سالوں سے جاری تنازعے اور جنگ ملک کی معاشی تباہی کا سبب بنی ہے۔ اس وقت اس ملک کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا ہے۔
یمن میں اقوام متحدہ کے 'انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن‘ (آئی پی سی) ٹیکنیکل گروپ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہیضہ اور خسرہ جیسی بیماریوں کے پھیلاؤ، مناسب غذائیت والی خوراک کی کمی، پینے کے پانی کی قلت اور وسیع پیمانے پر معاشی تنزلی کے جملہ اثرات کی وجہ سے غذائی قلت میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمن میں پانچ سال سے کم عمر کے غذائی قلت سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ تقریباﹰ چھ لاکھ بچے بنتے ہیں، جن میں 120,000 شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نومبر 2023 اور جون 2024 کے درمیان پہلی بار جنوبی الحدیدہ کے نشیبی علاقوں، بشمول الخوخہ اور حیس کے اضلاع میں شدید غذائی قلت کی اطلاع ملی ہے۔
رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا حالیہ دنوں میں شدید بھوک سے کوئی ہلاکت ہوئی ہے یا ملک کے حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں حالات کیسے ہیں؟
حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا سمیت یمن کے بیشتر بڑے شہری مراکز پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ سعودی حمایت یافتہ حکومت جنوب میں عدن میں قائم ہے۔
مارچ 2015 میں حوثی باغیوں کی جانب سے صنعا سے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ریاض کی زیر قیادت اتحاد نے یمن میں مداخلت کی تھی۔ حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ بدعنوان نظام اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
اس کثیر الجہتی تنازعے میں، جس میں کئی دھڑے اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یمن: امدادی تنظیموں کے وسائل ختم ہو رہے ہیں
یمنی جنگ جاری ہے۔ مقامی افراد بیرونی امداد کے ذریعے زندگی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امدادی تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
امداد میں کمی
یمن میں انسانی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ یمن کے تیرہ ملین افراد فاقے کی دہلیز پر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری خانہ جنگی اور امداد میں کمی ہے۔
تصویر: Khaled Ziad/AFP/Getty Images
امداد پر انحصار
کووڈ انیس کے بعد سے دنیا میں بے شمار افراد کو خوراک کی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ یمن ایک انتہائی محروم ملک ہے جہاں چالیس فیصد آبادی کا انحصار ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔
تصویر: Khaled Abdullah/REUTERS
پیسے ختم رہے ہیں
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس ملک میں تیس ملین میں سے تیرہ ملین افراد کے پاس کھانا پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے ایسے مخدوش مالی حالات میں بچوں کو کیسے اور کیوں کر بچا سکتے ہیں۔
تصویر: Giles Clarke/UNOCHA/picture alliance
نامکمل امدادی پیکجز
اس وقت صرف ان فاقہ کش افراد کے مرنے کا امکان ہے، جنہیں پورا راشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر کیرولین فلائشر کا کہنا ہے ضرورت دو بلین کی ہے اور جو عطیات ملتے ہیں وہ صرف اس رقم کا اٹھارہ فیصد ہیں۔
تصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
یوکرینی جنگ نے صورت حال کو ابتر کر دیا
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنازعات میں گھرے علاقوں میں امدادی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام امدادی گندم کا نصف یوکرین سے حاصل کرتا تھا اور جنگ کے شروع ہونے سے قبل قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کا بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے قحط کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: AHMAD AL-BASHA/AFP/Getty Images
خونریز خانہ جنگی
یمن میں گزشتہ سات برسوں سے خونریز خانہ جنگی جاری ہے اور اس میں علاقائی ریاستوں کا کردار بھی ہے۔ سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مخلوط عسکری اتحاد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ حوثی ملیشیا اس وقت بھی دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول رکھتی ہے۔
تصویر: imago images/Xinhua
عدن میں افراتفری
سن 2020 سے یمن کے جنوبی شہر عدن کا کنڑول علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک نوعیت کا شہر ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنمی حکومت کا آخری ٹھکانا بھی ہے۔ اس شہر میں دہشت گرد گروپ پوری طرح فعال ہیں۔ تصویر سن 2021کے ایک حملے کی ہے، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Wael Qubady/AP Photo/picture alliance
کوئی شیلٹر نہیں
تیل کی دولت سے مالامال یمنی علاقے مارب کو انتہائی شدید خراب حالات کا سامنا ہے۔ شمال میں یہ عدن حکومت کے زیرِ کنٹرول آخری شہر ہے۔ اس شہر میں جنگی حالات چھائے ہوئے ہیں۔ مارب علاقے پر سعودی جنگی طیارے بمباری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: AFP /Getty Images
ہسپتال بھرے ہوئے ہیں
ہیلتھ کیئر کی صورت حال یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کے مریض بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں حالات میں تبدیلی کی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: Abdulnasser Alseddik/AA/picture alliance
اسکول بھی بمباری سے تباہ
سن 2021 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جنگی حالات نے تعلیمی سلسلے کو بھی انتہائی برے انداز میں متاثر کر رکھا ہے۔ بیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بمباری سے بے شمار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Mohammed Al-Wafi /AA/picture alliance
بیچارگی و پریشانی
بجلی، صاف پانی، پٹرول اور اسی طرح کی کئی اشیاء یمن میں دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پر قطاریں مسلسل لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ امداد کے لیے فنڈ نہیں رہے اور بے چارگی اور پریشانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔