سعودی عسکری اتحاد نے اپنے ایک تازہ حملے میں یمن میں فعال حوثی باغیوں کے ایک اہم فوجی ٹھکانے کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ عسکری اتحاد کے مطابق اس فوجی ٹھکانے سے سعودی عرب پر بیلسٹک میزائل حملے کیے جاتے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سفاررتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے جمعے کے دن بتایا ہے کہ سعودی عسکری اتحاد نے علی الصبح صنعاء کے ببن الاقوامی ہوائی اڈے سے متصل ایک ایئر بیس پر فضائی حملے کیے ہیں۔ یہ ایئر بیس ایران نواز باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔ ریاض حکومت کا الزام ہے کہ یہی وہ فوجی اڈا ہے، جہاں سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی سعودی عرب پر میزائل حملے کرتے تھے۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن الاخباریہ نے سعودی عسکری اتحاد کے ترجمان کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ یمنی دارالحکومت صنعاء میں فضائی حملے کیے گئے۔ بیان کے مطابق اس ایئر بیس کو استعمال کرتے ہوئے یمنی باغی ڈرون اور میزائل حملوں سے سعودی عرب کا نشانہ بناتے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق اس ایئر بیس پر تقریبا بیس فضائی حملے کیے گئے، جس سے پورا شہر گونج اٹھا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس تازہ کارروائی کے باوجود صنعاء کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پروزاوں کا سلسلہ معمول کے مطابق جاری ہے۔ حوثی باغیوں کی حامی ٹیلی وژن نے بتایا ہے کہ الدلیمی ایئر بیس پر اور اس کے گردونواح کم ازکم تیس فضائی حملے کیے گئے۔
دوسری طرف یمن کے مغربی شہر الحدیدہ میں حوثی باغیوں اور یمنی فورسز اور اس کی حامی ملیشیا طاقتوں کے مابین لڑائی کا نیا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس کاروائی میں یمنی فورسز کو سعودی عسکری اتحاد کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ یہ تازہ تشدد ایک ایسے وقت میں دیکھا جا رہا ہے، جب کچھ دن قبل ہی یمن میں سیز فائر کے حوالے سے سعودی عرب نے اپنی رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔
حوثی باغیوں نے سن دو ہزار چودہ میں یمن کی بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کا آغاز کیا تھا، جس کے نتیجے میں حکومتی عہدیدار جلا وطن ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد نے حوثی باغیوں کے خلاف باقاعدہ عسکری کارروائی شروع کی تھی۔ اس تشدد کی وجہ سے اب تک کم از کم دس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حوثی باغی اب بھی یمن کے زیادہ تر علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں، جن میں دارالحکومت صنعاء بھی شامل ہے۔ اس خانہ جنگی کی وجہ سے یمن کا زیادہ تر انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ لڑائی کی وجہ سے اس عرب ملک کی ایک بڑی آبادی کو قحط کا شدید خطرہ بھی لاحق ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے اور خواتین ہیں۔
ع ب / ش ح/ خبر رساں ادارے
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔