یمن میں سعودی عسکری اتحاد کے حملے، پچیس افراد ہلاک
عاطف بلوچ، روئٹرز
18 جون 2017
سعودی عسکری اتحاد کی طرف سے یمن میں کی گئی تازہ فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں پچیس افراد مارے گئے ہیں۔ طبی حکام نے بتایا ہے کہ یہ حملے شمالی صوبے صعدہ میں اتوار کے دن کیا گئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے یمن میں موجود طبی حکام کے حوالے سے اٹھارہ جون بروز اتوار بتایا ہے کہ سعودی عسکری اتحاد کی طرف سے یہ تازہ کارروائی شادہ نامی ڈسٹرکٹ کی المشناق مارکیٹ میں کی گئی۔ یہ مقام سعودی سرحد سے قریب ہی واقع ہے۔خانہ جنگی کے ساتھ ہیضہ، یمن میں تین سو سے زائد افراد ہلاک
طبی ذرائع نے پچیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس دوران ایک شخص زخمی بھی ہوا ہے۔ سعودی عسکری اتحاد کی طرف سے فوری طور پر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
یمن کا تنازعہ گزشتہ ستائیس ماہ سے جاری ہے۔ اس خانہ جنگی کے باعث دس ہزار سے زائد افراد ہلاک جبکہ کم ازکم تین ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔ شمالی یمن میں ابھی تک ایران نواز حوثی باغی قابض ہیں جبکہ جلا وطن یمنی صدر عبد ربو منصور ہادی کی حامی افواج اور سعودی عسکری اتحاد ان باغیوں کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم ان حملوں کے باوجود شیعہ باغی ابھی تک دارالحکومت صنعا پر قابض ہیں۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
9 تصاویر1 | 9
ڈاکٹر عبداللہ العزیز نے ٹیلی فون پر روئٹرز کو بتایا کہ ان حملوں کے بعد امدادی ٹیمیں فوری طور پر مذکورہ مقام تک نہیں پہنچ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی اتحادی طیاروں نے علاقے بھر میں شیلنگ کی ہے۔ روئٹرز ان خبروں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے کیونکہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہے، وہ نہ صرف دوردراز علاقہ ہے بلکہ وہاں ذرائع ابلاغ بھی فعال نہیں ہیں۔
تاہم سعودی عسکری اتحاد پر اس طرح کے حملوں کے الزامات پہلے بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ مارچ میں ہی اس فوجی اتحاد نے مغربی یمن میں ایک ایسا ہی حملہ کیا تھا، جس میں بائیس افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
سعودی عسکری اتحاد سن دو ہزار پندرہ میں قائم کیا گیا تھا تاکہ حوثی باغیوں اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کی حامی افواج کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ اس اتحاد میں متعدد عرب ریاستیں شامل ہیں۔