یمن میں ’ظلم و ستم‘ کی چھان بین اقوام متحدہ کرے، رعد الحسین
عاطف بلوچ، روئٹرز
5 ستمبر 2017
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر کے مطابق یمنی خانہ جنگی کے دوران انسانی حقوق کی پامالیوں کی انکوائری اقوام متحدہ کو ہی کرنا چاہیے کیونکہ اس تباہ حال ملک کی حکومت میں غیرجانبدارانہ چھان بین کرانے کی اہلیت نہیں ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر شیخ زید رعد الحسین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یمن میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی غیر جانبدارانہ انکوائری نہ کروانا ایک ’شرمناک‘ عمل ہے۔ اس کمیشن کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمنی خانہ جنگی کے دوران رونما ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی چھان بین اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو ہی کرنا چاہیے۔
رپورٹ میں اس عالمی ادارے پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ یمن کے بحران کے تناظر میں اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سے انجام نہیں دے رہا۔
سینتالیس ممالک پر مشتمل اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے عہدیدار رواں ماہ ایک ملاقات میں یمن کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے والے ہیں۔
اس کونسل نے کہہ رکھا ہے کہ یمن میں تباہی دراصل ’انسانوں نے ہی مچائی ہے، جس سے بچا بھی جا سکتا تھا‘۔
اس ملاقات میں یہ کونسل یمنی خانہ جنگی کے دوران ڈھائے جانے والے ظلم وستم اور ان کے تدارک کی خاطر بات چیت کرے گی۔
دو سال قبل اس کونسل نے یمن کی صورتحال کے بارے میں ایسے الزامات کی چھان بین کی خاطر ذمہ داری یمن نیشنل کمیشن کو سونپ دی تھی، جو صدر منصور ہادی کو رپورٹ دیتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ صدر منصور ہادی سعودی عرب کے قریبی حامی تصور کیے جاتے ہیں۔
اس جنگ میں سعودی عسکری اتحاد ہادی کے مخالفین کے خلاف عسکری کارروائیاں کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایران نواز حوثی باغی اور سابق صدر کی ملیشیا فورسز حکومت کے خلاف فعال ہیں۔ اس خانہ جنگی کے باعث دس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یمن کا نیشنل کمیشن سیاسی رکاوٹوں کا شکار ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ جانبداریت اور شورش زدہ علاقوں میں پہنچ نہ ہونا، ایسے عوامل ہیں کہ یہ یمنی کمیشن اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔
اس لیے یمن میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی چھان بین کی ذمہ داری اقوام متحدہ کو ہی اٹھانا چاہیے۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
9 تصاویر1 | 9
دوسری طرف اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو یمن کی جنگ روک دینا چاہیے یا اسے یمن میں انسانی بنیادوں پر امداد کی تمام تر مالی ذمہ داری بھی اپنے سر لینا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ سن دو ہزار پندرہ سے اکتیس اگست سن دو ہزار سترہ تک اس تنازعے کے نتیجے میں پانچ ہزار 144 عام شہری بھی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف تعداد صرف سعودی عسکری اتحاد کی فضائی کارروائیوں کے باعث لقمہ اجل بنی۔
مزید کہا گیا ہے کہ یمن میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری ہے، جس سے صورتحال مزید ابتر ہونے کا خطرہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
یمن میں پھنسے پاکستانی واپس اپنی سرزمین پر
پاکستان نیوی کا بحری جہاز ’پی این ایس اصلت‘ یمن کی خانہ جنگی میں پھنسے پاکستانیوں سمیت ایک سو بیاسی محصورین کو لے کر کراچی پہنچ گیا۔ ان محصورین میں چینی، فلپائنی اور بھارتی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
اپنے وطن کی خوشبو
’پی این ایس اصلت‘ کے ذریعے یمن کے شہر المکلہ سے وہ لوگ کراچی پہنچے ہیں، جو روزگار کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ کر یمن جا بسے تھے۔ جیسے ہی یمن میں صورت حال سنگین ہوئی، حکومت پاکستان نے اپنے شہریوں کی بحفاظت واپسی کو اولین ترجیح دی، پی آئی اے نے اپنے طیارے الحدیدہ اور صنعاء بھیجے اور نیوی کے جہازوں کو بھی یمن کی جانب روانہ کیا گیا۔
تصویر: DW/R. Saeed
سبز ہلالی پرچموں کی بہار
سبز ہلالی پرچم اٹھائے محصورین پاکستان کی سرزمین پر اترے تو فضا نعروں سے گونج اٹھی۔ بندگارہ پر استقبالیہ کیمپ قائم کیا گیا تھا، جہاں ریئرایڈمرل مختار خان جدون نے محصورین کو خوش آمدید کہا۔
تصویر: DW/R. Saeed
منزل پر پہنچ جانے کا اطمینان
چین سے غیر معمولی تعلقات کا بھی فائدہ اٹھایا گیا اور عدن میں موجود چینی بحری جہاز کے ذریعے بھی پاکستانیوں کو افریقی ملک جبوتی پہنچایا گیا، جہاں سے ہوائی جہاز کے ذریعے انہیں پاکستان لایا گیا۔
تصویر: DW/R. Saeed
اپنے وطن کی کیا بات ہے!
یمن سے وطن واپس پہنچنے والے پاکستانی شہری بحری جہاز ’اصلت‘ سے اترنے کے بعد پھولوں کے ہار پہنے اپنے بحفاظت انخلاء پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کئی غیر ملکی شہریوں کا بھی انخلاء ساتھ ہی
پاک بحریہ کے فریگیٹ اصلت کے ذریعے چھتیس غیرملکیوں کا بھی یمن سے محفوظ انخلاء ممکن ہوا۔ ’پی این ایس اصلت‘ نے چین اور فلپائن کے آٹھ، برطانیہ کے چار اور انڈونیشیا کے تین شہریوں کو کراچی کی بندرگاہ پہنچایا۔ کینیڈا، مصر اور اردن کے بھی شہری یمن سے پاکستان منتقل کیے گئے۔ گیارہ بھارتی شہری بھی پاک بحریہ کے فریگیٹ کے ذریعے پاکستان پہنچے۔
تصویر: DW/R. Saeed
استقبال کے لیے پھول ہی پھول
’اصلت‘ کے ذریعے کراچی پہنچنے والے پاکستانیوں کے اہلِ خانہ کی ایک بڑی تعداد اُن کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ جیسے ہی یمن میں پھنسے پاکستانی اپنی سرزمین پر قدم رکھتے تھے، لوگ آگے بڑھ کر اُن کے گلے میں ہار ڈالتے تھے۔
تصویر: DW/R. Saeed
کراچی بندرگاہ پر رونقیں
منگل کی سہ پہر پاک بحریہ کا جہاز یمن سے محصورین کو لے کرکراچی کے پورٹ چینل میں داخل ہوا تو پیٹرولنگ بوٹس اور ٹگز نے اسے اپنے حفاظتی حصار میں لے لیا جبکہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی مسلسل فضائی نگرانی کا عمل جاری رہا۔
تصویر: DW/R. Saeed
’اصلت‘ کے عرشے سے وطن کا نظارہ
’اصلت‘ کے بندرگاہ کے قریب پہنچنے پر لوگ اپنے ہم وطنوں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا ہلا کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاک بحریہ کی جانب سے ہم وطنوں کی محفوظ وطن واپسی کے لیے دوسرا بحری ’پی این ایس شمشیر‘ اب بھی خلیج عدن میں موجود ہے، جو جبوتی سے ہوتا ہوا آئندہ ہفتے 36 پاکستانیوں اور 15 غیر ملکیوں کو لے کر کراچی پہنچے گا۔
تصویر: DW/R. Saeed
اپنے پیاروں سے ملن
کراچی کی بندرگاہ پر سات اپریل منگل کو جشن کا سا سماں تھا اور لوگ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے خیریت کے ساتھ جنگ زدہ عرب ملک یمن سے واپس پہنچ جانے پر نہال تھے۔
تصویر: DW/R. Saeed
خوش آمدید کہتے اہلِ خانہ
سبز ہلالی پرچم اٹھائے محصورین پاکستان کی سرزمین پر اترے تو فضا نعروں سے گونج اٹھی۔ بندگارہ پر استقبالیہ کیمپ قائم کیا گیا تھا، جہاں ریئرایڈمرل مختار خان جدون نے محصورین کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر محصورین کے اہل خانہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔
تصویر: DW/R. Saeed
طویل سفر کے بعد لنگر انداز
’پی این ایس اصلت‘ یمن کے شہرالمکلہ سے 4 اپریل کو روانہ ہوا تھا، جس کے ذریعے پاکستان پہنچنے والوں میں 146 پاکستانیوں کےعلاوہ 11 بھارتی، 8 چینی، 8 فلپینی، 4 برطانوی، 3 انڈونیشین، 2 شامی اور ایک کینیڈین شہری بھی شامل ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
خطرناک حالات کے لیے تیار
مشن کمانڈر کموڈور زاہد الیاس کا کہنا تھا کہ وہ یمن میں ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کےلیے تیار تھے۔ ’پی این ایس اصلت‘ میزائلوں اورجدید ریڈار سے لیس جنگی بحری جہاز ہے، جسے ہر طرح کے حالات کے لیے بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ کا فریگیٹ بارہ سو میل کا فاصلہ طے کر کے اپنوں کو واپس لایا ہے۔ المکلہ میں بد امنی کے باعث ’پی این ایس اصلت‘ نے ایک اور مقام سے محصورین کو آن بورڈ لیا۔
تصویر: Pakistan Navy
’پاکستان کی بحریہ کا شکریہ‘
برطانوی اور کینیڈین شہری نے پاک بحریہ کی کاوش پر شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ پرخطرحالات میں پاک بحریہ کی یہ کارروائی ایک بڑی کامیابی ہے۔ آئندہ چند روز تک پاک بحریہ خلیج عدن میں موجود رہے گی تاکہ ضرورت پڑنے پر مزید پاکستانیوں یا دوست ممالک کے شہریوں کو تحفظ فراہم کر سکے۔ ’اصلت‘ کے ذریعے پاکستان آئے بھارتی شہریوں نے پاک بحریہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان کی کوششوں سے آج یمن سے انخلاء ممکن ہوا۔