یمن میں قیدیوں کے ممکنہ تبادلے کے لیے اردن میں مکالمت جاری
18 جون 2023
یمنی خانہ جنگی کے دونوں حریف دھڑے آپس میں قیدیوں کے ممکنہ تبادلے کے لیے اردن میں مکالمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یمنی حکومت اور ایران نواز حوثی باغیوں کے مابین اس مکالمت کی ریڈ کراس کے ذرائع نے بھی تصدیق کر دی ہے۔
اشتہار
دبئی سے اتوار 18 جون کو موصولہ رپورٹوں میں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کی ایک عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اردن میں یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور ایران نواز حوثی باغیوں کے مابین اس بارے میں مذاکرات جاری ہیں کہ کسی طرح اس اتفاق رائے تک پہنچا جا سکے، جس کے بعد فریقین کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہو سکے۔
یمن میں داخلی خونریزی اور پھر کئی برسوں کے لیے باقاعدہ خانہ جنگی کی وجہ بننے والا تنازعہ 2014ء میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب حوثی باغیوں نے ملکی دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس کے بعد یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو وہاں سے رخصت ہونا پڑ گیا تھا اور پھر سعودی عرب نے اپنی قیادت میں ایک ایسا فوجی اتحاد بھی بنا لیا تھا، جس نے یمنی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیے تھے۔
اس تنازعے کے اتنا پھیل جانے اور برسوں کا طول پکڑ جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یمن میں اس خانہ جنگی کے براہ راست یا بالواسطہ اثرات کی وجہ سے لاکھوں انسان ہلاک یا زخمی ہو گئے۔
اس صورت حال میں ایک ایسا شدید بحران بھی پیدا ہو گیا تھا، جسے اقوام متحدہ نے انسانی بنیادوں پر فوری امداد کا متقاضی اور اپنی نوعیت کے دنیا کے بدترین بحرانوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔
فاقہ کشی کا شکار یمنی بچے
02:20
عمان میں مکالمت کا آغاز
بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے مطابق اردن کے دارالحکومت عمان میں یمنی تنازعے کے دونوں مسلح دھڑوں کے مابین قیدیوں کے ممکنہ تبادلے سے متعلق یہ بات چیت جمعہ 16 جون کو شروع ہوئی تھی، جو آج بھی جاری ہے۔
اس مکالمت کی نگرانی یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کا دفتر اور بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔
انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی کی مشرق وسطیٰ کے لیے میڈیا ایڈوائزر جیسیکا موسان نے بتایا، ''اس مکالمت کے نگران حلقے تنازعے کے فریقین کے ساتھ اس لیے ملاقاتیں کر رہے ہیں کہ کوئی ایسی مشترکہ بنیاد تلاش کی جا سکے، جس کے بعد مستقبل قریب میں قیدیوں کے تبادلے کا عمل ممکن ہو سکے۔‘‘
عمان میں یہ مکالمت یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے مابین ایک ایسے معاہدے کے ضمنی نتیجے کے طور پر ہو رہی ہے، جو پانچ سال قبل سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں طے پایا تھا۔
م م / ع س (اے ایف پی)
یمن: امدادی تنظیموں کے وسائل ختم ہو رہے ہیں
یمنی جنگ جاری ہے۔ مقامی افراد بیرونی امداد کے ذریعے زندگی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امدادی تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
امداد میں کمی
یمن میں انسانی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ یمن کے تیرہ ملین افراد فاقے کی دہلیز پر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری خانہ جنگی اور امداد میں کمی ہے۔
تصویر: Khaled Ziad/AFP/Getty Images
امداد پر انحصار
کووڈ انیس کے بعد سے دنیا میں بے شمار افراد کو خوراک کی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ یمن ایک انتہائی محروم ملک ہے جہاں چالیس فیصد آبادی کا انحصار ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔
تصویر: Khaled Abdullah/REUTERS
پیسے ختم رہے ہیں
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس ملک میں تیس ملین میں سے تیرہ ملین افراد کے پاس کھانا پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے ایسے مخدوش مالی حالات میں بچوں کو کیسے اور کیوں کر بچا سکتے ہیں۔
تصویر: Giles Clarke/UNOCHA/picture alliance
نامکمل امدادی پیکجز
اس وقت صرف ان فاقہ کش افراد کے مرنے کا امکان ہے، جنہیں پورا راشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر کیرولین فلائشر کا کہنا ہے ضرورت دو بلین کی ہے اور جو عطیات ملتے ہیں وہ صرف اس رقم کا اٹھارہ فیصد ہیں۔
تصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
یوکرینی جنگ نے صورت حال کو ابتر کر دیا
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنازعات میں گھرے علاقوں میں امدادی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام امدادی گندم کا نصف یوکرین سے حاصل کرتا تھا اور جنگ کے شروع ہونے سے قبل قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کا بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے قحط کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: AHMAD AL-BASHA/AFP/Getty Images
خونریز خانہ جنگی
یمن میں گزشتہ سات برسوں سے خونریز خانہ جنگی جاری ہے اور اس میں علاقائی ریاستوں کا کردار بھی ہے۔ سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مخلوط عسکری اتحاد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ حوثی ملیشیا اس وقت بھی دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول رکھتی ہے۔
تصویر: imago images/Xinhua
عدن میں افراتفری
سن 2020 سے یمن کے جنوبی شہر عدن کا کنڑول علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک نوعیت کا شہر ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنمی حکومت کا آخری ٹھکانا بھی ہے۔ اس شہر میں دہشت گرد گروپ پوری طرح فعال ہیں۔ تصویر سن 2021کے ایک حملے کی ہے، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Wael Qubady/AP Photo/picture alliance
کوئی شیلٹر نہیں
تیل کی دولت سے مالامال یمنی علاقے مارب کو انتہائی شدید خراب حالات کا سامنا ہے۔ شمال میں یہ عدن حکومت کے زیرِ کنٹرول آخری شہر ہے۔ اس شہر میں جنگی حالات چھائے ہوئے ہیں۔ مارب علاقے پر سعودی جنگی طیارے بمباری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: AFP /Getty Images
ہسپتال بھرے ہوئے ہیں
ہیلتھ کیئر کی صورت حال یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کے مریض بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں حالات میں تبدیلی کی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: Abdulnasser Alseddik/AA/picture alliance
اسکول بھی بمباری سے تباہ
سن 2021 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جنگی حالات نے تعلیمی سلسلے کو بھی انتہائی برے انداز میں متاثر کر رکھا ہے۔ بیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بمباری سے بے شمار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Mohammed Al-Wafi /AA/picture alliance
بیچارگی و پریشانی
بجلی، صاف پانی، پٹرول اور اسی طرح کی کئی اشیاء یمن میں دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پر قطاریں مسلسل لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ امداد کے لیے فنڈ نہیں رہے اور بے چارگی اور پریشانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔