1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن کی صدارتی کونسل نے وزیر اعظم سعید کو برطرف کر دیا

6 فروری 2024

یمن کی بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ صدارتی کونسل نے ایک غیر متوقع اقدام میں وزیر اعظم معین عبدالملک سعید کو برطرف کردیا ہے۔ وزیر خارجہ احمد عوض بن مبارک کو جنگ سے تباہ حال ملک کا نیا وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے۔

معین عبدالملک سعید سن 2018 سے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے
معین عبدالملک سعید سن 2018 سے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھےتصویر: Salvatore Di Nolfi/AP Photo/picture alliance

یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدارتی کونسل کا یہ غیر متوقع اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکی قیادت والی اتحاد حکومت کے حریفوں، ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حوثی باغیوں کے اہداف کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے۔

کونسل کے ایک حکم نامے کے مطابق سن 2018 سے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز معین عبدالملک سعید کو برطرف کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ وزیر خارجہ احمد عوض بن مبارک کو نیا وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے، جنہیں سعودی عرب کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔

صدارتی کونسل نے اس غیر متوقع رد و بدل کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔

یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں پر مزید امریکی حملے

صدارتی کونسل بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی نمائندگی کرتی ہے، جسے حوثیوں نے تقریباً ایک دہائی قبل دارالحکومت صنعا سے بے دخل کر دیا تھا۔ اس کونسل کا صدر دفتر ملک کے جنوب میں عدن شہر میں واقع ہے۔

احمد عوض بن مبارک جون 2021 میں برلن میں اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے ساتھتصویر: Michael Sohn/AP/dpa/picture alliance

احمد عوض بن مبارک کون ہیں؟

احمد عوض بن مبارک واشنگٹن میں اپنے ملک کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ یمن کے صدارتی دفتر کے چیف آف اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور 2018 میں اقوام متحدہ میں ملک کے ایلچی کے طور پر بھی مقرر ہوئے تھے۔

 انہیں سن 2018 میں ملک کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا تھا۔

مبارک حوثیوں کے ایک طویل عرصے سے مخالف ہیں، جنہوں نے ان کا سن 2015 میں اغوا کیا تھا اور کئی دنوں تک قید میں رکھا۔

یمن میں دیرپا امن کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی ضروری، جرمنی

امریکہ میں قائم ناوینتی ریسرچ گروپ میں یمن امورکے ماہر محمد الباشا نے کہا کہ احمد عوض بن مبارک کو ''سعودی قیادت والے اتحاد کے معماروں'' میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس نے 2015 میں دارالحکومت صنعا پر باغیوں کے قبضے کے ایک سال بعد حوثیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی حمایت کے لیے مداخلت کی تھی۔

یمن کی صدارتی کونسل کے سربراہ رشاد محمد العلیمیتصویر: REUTERS

جنگ سے تباہ حال ملک

یمن سن 2014 سے ہی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے، جب ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا اور شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔

سعودی زیرقیادت والے اتحاد نے مہینوں بعد مداخلت کی اور سن 2015 سے باغیوں سے جنگ کر رہا ہے تاکہ بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ حکومت کو اقتدار میں بحال کیا جا سکے۔

یمن میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرت میں پیش رفت

پہلے سے ہی غربت کا شکار یمن میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے جنگجووں اور عام شہریوں سمیت ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

 اپریل 2022 میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے لڑائی کی شدت میں نمایاں کمی آئی حالانکہ اس کے اثرات چھ ماہ بعد ختم ہو گئے تھے۔

بحیرہ احمر میں کشیدگی حوثی باغیوں کے لیے ایک ’سنہری موقع‘؟

حالیہ مہینوں میں حوثیوں اور سعودی عرب کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کو بحال کرنے کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ لیکن اکتوبر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے امن کے قیام کی کوششیں متاثر ہوئی ہیں۔

حوثیوں نے بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے راستوں پر حملے کیے ہیں، جس کے جواب میں امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں