اردن میں قائم عرب رپورٹرز برائے تفتیشی صحافت کے مطابق یمن میں دہشت گرد گروپوں کے اسلحے کے ذخیرہ یورپی ہتھیاروں سے بھرے ہیں۔ یہ تفتیشی ریسرچ ڈی ڈبلیو کی درخواست پر کی گئی ہے۔
اشتہار
یمن میں القاعدہ کی ذیلی شاخ نے خانہ جنگی کے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قدم جمانے کا سلسلہ بظاہر شروع کر رکھا ہے اور ابھی تک اُسے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی ایک مثال سن 2016 میں جاری کی جانے والی ویڈیو میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ یمنی القاعدہ کے جنگجو کتنے تربیت یافتہ ہیں۔ اس ویڈیو میں ان کے ہاتھوں میں جرمن ڈیزائن رائفلز ہیں۔ یہ جی تھری جنگی رائفلیں اور جی تھرٹی سکس اسالٹ بندوقیں ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے پاس سعودی عرب میں جرمن لائسنس سے ہتھیار تیار کرنے والے ادارے ہیکلر اینڈ کوخ کی مشین گنیں بھی ہیں۔
عرب رپورٹرز فار انویسٹیگیٹو جرنلزم (ARIJ) کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یمنی حکومت کی فوج کے بریگیڈئر جنرل محمد المحمودی کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں کے پاس جو ہتھیار ہیں، وہ بنیادی طور پر صدر منصور ہادی کی افواج کے لیے جاری کیے گئے تھے اور ان کا دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ لگنے کی وجہ فوج کے ملازمین کو دی جانے والی کم تنخواہیں ہیں اور یہ ملازمین اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہتھیار اور دوسرا اسلحہ فروخت کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ہتھیار براہ راست بیچنے کے علاوہ مڈل مین کے ذریعے بھی فروخت کر دیے جاتے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ انٹرنیشنل قانون کے تحت جائز اسلحے کو بھی کسی مڈل مین یا تھرڈ پارٹی کے توسط سے کسی انتہا پسند گروپ کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ یمن کے انتہا پسند گروہوں کے پاس تھرڈ پارٹی سے خریدا ہوا ہی اسلحہ موجود ہے۔ ہتھیار تیار کرنے والے ادارے ہیکلر اینڈ کوخ نے عرب رپورٹرز کے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا ہے۔
اُدھر جرمنی کی وزارت اقتصادی امور نے واضح کیا ہے کہ وہ ایسے قابل اعتماد شواہد سے لاعلم ہے، جن کے مطابق جرمنی کے تیار کردہ ہتھیار کیونکر اور کیسے یمن کے انتہا پسندوں کے زیر استعمال ہیں۔ وزارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ایسا ہو رہا ہے تو یقینی طور پر یہ انتہائی سنگین صورت حال ہے۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے یمن کی صورت کے ماہرین کے کوآرڈینیٹر کرنل احمد ہمیشی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ یمن میں غیرقانونی و ناجائز ہتھیار وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔ ہمیشی کے مطابق یمن میں ایسے جنگجو گروپ بھی ہیں جو کسی کے کنٹرول میں نہیں اور بعض کو یمنی فوج کی حمایت ملنے کی صورت میں ہتھیار وغیرہ فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہمیشی کے مطابق انجام کار یہ ہتھیار بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہوتے ہیں۔
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔