یمن کے صدر عبد الربہ منصور ہادی نے اپنے اختیارات صدارتی قیادت کی کونسل کو منتقل کر دیے ہیں اور نائب صدر علی محسن الاحمر کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ یہ کونسل مذاکرات کی قیادت کرے گی۔
اشتہار
یمن کے صدر عبد الربہ منصور ہادی نے سات اپریل جمعرات کو اپنے اختیارات اس نئی صدارتی قیادت کی کونسل کو سونپ دیے، جسے ''عبوری مدت'' کے دوران حکومت چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ منصور ہادی نے نائب صدر علی محسن الاحمر کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا۔
ٹیلیویژن پر اپنے خطاب میں صدر منصور ہادی نے کہا کہ نو تشکیل شدہ ادارہ ملک میں برسوں سے جاری تنازعے کو ختم کرنے کے لیے حوثی باغیوں کے ساتھ مستقل جنگ بندی اور سیاسی تصفیہ کے لیے مذاکرات کی قیادت کرے گا۔
یمن 2014 کے اواخر سے ہی سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان تباہ کن لڑائی سے دو چار ہے۔ تاہم حال میں فریقین میں جنگ بندی کاایک معاہدہ ہوا اور اس کے تحت اس دیرینہ تنازعے کے سیاسی حل کی کوششیں بھی شروع کی جا رہی ہیں۔
یمن میں نازک جنگ بندی برقرار ہے
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہینس گرنڈبرگ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی ثالثی سے یمن میں، ''ہفتے کے روز سے، جو دو ماہ کی ملک گیر جنگ بندی شروع ہوئی ہے، اس کی وجہ سے تشدد میں نمایاں کمی آئی ہے۔'' تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بہت نازک ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''کچھ معاندانہ فوجی سرگرمیوں کی اطلاعات بھی ہیں، خاص طور پر معارب کے آس پاس، جو تشویشناک ہیں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ یہ جنگ بندی ''ایک طرح سے اہم اور خطرناک دونوں '' صورت حال کی نمائندگی کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ یہ جنگ بندی ایک اہم قدم ہے، لیکن ایک نازک قدم بھی ہے۔ بہر حال، ہمیں اس موقع کا ممکنہ استعمال احسن طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ بندی ہمیں تنازعات کو ختم کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔ ''
ماہ رمضان کے آغاز پر سعودی اتحاد کی حمایت یافتہ منصور ہادی کی یمنی حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پا یا تھا۔
حوثی باغی گزشتہ ایک برس سے توانائی کی دولت سے مالا مال صوبے معارب کو حکومتی دستوں سے چھیننے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن صنعا کی حکومت کے لیے سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی حمایت نے انہیں اس میں ناکام بنا دیا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کو توقع ہے کہ جنگ بندی سیاسی حل میں مدد گار ہو گی
ہینس گرنڈبرگ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس جنگ بندی معاہدے کی نگرانی اقوام متحدہ نہیں کر رہا ہے اور اسے برقرار رکھنے کی ذمہ داری ''خود فریقین پر عائد'' ہوتی ہے۔ البتہ اقوام متحدہ دو ماہ کے معاہدے پر عمل کو یقینی بنانے کے لیے ایک ایسا میکنزم تیار کرنے پر کام کر رہا ہے، جس سے اس میں شامل تمام افراد کو برسوں سے جاری تنازعے کے سیاسی حل کی طرف آنے کا موقع ملے گا۔
جنگ بندی معاہدہ حدیدہ کی بندرگاہ تک ایندھن کی آمد اور صنعا کے اندر اور باہر مسافروں کی پروازوں کی اجازت دیتا ہے۔ یہ دونوں علاقے باغیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ایندھن کی قلت سے قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے اور یہاں تک کہ ہسپتالوں کو بھی بند کرنا پڑا۔
یمن کا یہ تنازعہ بنیادی طور پر ریاض اور تہران کے درمیان کی ایک پراکسی جنگ ہے۔ یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب ستمبر 2014 میں حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ پھر مارچ 2015 میں سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد بھی یمن کی حکومت کی بحالی کی کوششوں میں شامل ہو گیا۔
اس کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ، جن میں سے ہزاروں عام شہری ہیں، مارے جا چکے ہیں۔ لاکھوں مزید بے گھر ہو چکے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی کو اس وقت شدید بھوک کا سامنا ہے اور یہ کرہ ارض کی بدترین انسانی تباہی میں سے ایک بن چکا ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)
یمن: امدادی تنظیموں کے وسائل ختم ہو رہے ہیں
یمنی جنگ جاری ہے۔ مقامی افراد بیرونی امداد کے ذریعے زندگی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امدادی تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
امداد میں کمی
یمن میں انسانی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ یمن کے تیرہ ملین افراد فاقے کی دہلیز پر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری خانہ جنگی اور امداد میں کمی ہے۔
تصویر: Khaled Ziad/AFP/Getty Images
امداد پر انحصار
کووڈ انیس کے بعد سے دنیا میں بے شمار افراد کو خوراک کی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ یمن ایک انتہائی محروم ملک ہے جہاں چالیس فیصد آبادی کا انحصار ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔
تصویر: Khaled Abdullah/REUTERS
پیسے ختم رہے ہیں
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس ملک میں تیس ملین میں سے تیرہ ملین افراد کے پاس کھانا پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے ایسے مخدوش مالی حالات میں بچوں کو کیسے اور کیوں کر بچا سکتے ہیں۔
تصویر: Giles Clarke/UNOCHA/picture alliance
نامکمل امدادی پیکجز
اس وقت صرف ان فاقہ کش افراد کے مرنے کا امکان ہے، جنہیں پورا راشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر کیرولین فلائشر کا کہنا ہے ضرورت دو بلین کی ہے اور جو عطیات ملتے ہیں وہ صرف اس رقم کا اٹھارہ فیصد ہیں۔
تصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
یوکرینی جنگ نے صورت حال کو ابتر کر دیا
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنازعات میں گھرے علاقوں میں امدادی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام امدادی گندم کا نصف یوکرین سے حاصل کرتا تھا اور جنگ کے شروع ہونے سے قبل قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کا بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے قحط کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: AHMAD AL-BASHA/AFP/Getty Images
خونریز خانہ جنگی
یمن میں گزشتہ سات برسوں سے خونریز خانہ جنگی جاری ہے اور اس میں علاقائی ریاستوں کا کردار بھی ہے۔ سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مخلوط عسکری اتحاد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ حوثی ملیشیا اس وقت بھی دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول رکھتی ہے۔
تصویر: imago images/Xinhua
عدن میں افراتفری
سن 2020 سے یمن کے جنوبی شہر عدن کا کنڑول علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک نوعیت کا شہر ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنمی حکومت کا آخری ٹھکانا بھی ہے۔ اس شہر میں دہشت گرد گروپ پوری طرح فعال ہیں۔ تصویر سن 2021کے ایک حملے کی ہے، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Wael Qubady/AP Photo/picture alliance
کوئی شیلٹر نہیں
تیل کی دولت سے مالامال یمنی علاقے مارب کو انتہائی شدید خراب حالات کا سامنا ہے۔ شمال میں یہ عدن حکومت کے زیرِ کنٹرول آخری شہر ہے۔ اس شہر میں جنگی حالات چھائے ہوئے ہیں۔ مارب علاقے پر سعودی جنگی طیارے بمباری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: AFP /Getty Images
ہسپتال بھرے ہوئے ہیں
ہیلتھ کیئر کی صورت حال یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کے مریض بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں حالات میں تبدیلی کی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: Abdulnasser Alseddik/AA/picture alliance
اسکول بھی بمباری سے تباہ
سن 2021 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جنگی حالات نے تعلیمی سلسلے کو بھی انتہائی برے انداز میں متاثر کر رکھا ہے۔ بیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بمباری سے بے شمار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Mohammed Al-Wafi /AA/picture alliance
بیچارگی و پریشانی
بجلی، صاف پانی، پٹرول اور اسی طرح کی کئی اشیاء یمن میں دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پر قطاریں مسلسل لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ امداد کے لیے فنڈ نہیں رہے اور بے چارگی اور پریشانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔