یواے ای اور اسرائیلی کمپنیوں کے درمیان معاہدے پر دستخط
17 اگست 2020
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوجانے کے بعد دونوں ملکوں کی کمپنیوں کے مابین ایک تجارتی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔
اشتہار
اسے دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا معاہد ہ قرار دیا جارہاہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کی کمپنیاں کووڈ۔19 پر تحقیق و تجربات پر توجہ مرکوز کریں گی۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی سرکاری خبر رسا ں ایجنسی وام (WAM)کی طرف سے 16 اگست کو جار ی کردہ ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اماراتی کمپنی اپیکس نیشنل انوسٹمنٹ (آر) اور اسرائیلی ٹیرا گروپ کے نمائندے یو اے ای کے دارالحکومت ابوظبی میں نئے کورونا وائرس پر تحقیق کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کررہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی وام نے بتایا کہ یو اے ای کے اپیکس نیشنل انوسٹمنٹ کمپنی نے اسرائیل کے ٹیرا گروپ کے ساتھ کووڈ۔19 پر تحقیق اور تجربات کے لیے آلات تیار کرنے کے ایک 'اسٹریٹیجک کمرشیئل معاہدے‘ پر دستخط کیے ہیں۔
وام نے اپیکس کے چیئرمین خلیفہ یوسف خاوری کے حوالے سے بتایا کہ ”اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیلی بزنس سیکٹر کے درمیان تجارت، معیشت اور موثر شراکت کو شروع کرنے کے حوالے سے پہلا معاہدہ سمجھا جا رہا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ'نئے کورونا وائرس پر تحقیق اور مطالعہ کے ذریعہ انسانیت کی خدمت‘کے لیے کیا گیا ہے۔
اس معاہدے پر یو اے ای کے دارالحکومت ابو ظبی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران دستخط کیے گئے۔
خیال رہے کہ جمعرات کے روز امریکا کی ثالثی میں دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس 'تاریخی‘ اور 'امن معاہدے‘ کے بعد اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کو انضمام کرنے کے اپنے متنازع منصوبے کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
باہمی تعلقات قائم ہوجانے کی علامت کے طورپر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اتوار کے روز ٹیلی فون پر پہلی مرتبہ عوامی طور پر بات چیت کی جب یو اے ای نے اسرائیل کے لیے اپنی ٹیلی فون لائنیں کھول دیں۔
یو اے ای کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر برائے اسٹریٹیجک کمیونیکیشنزہند العتیبہ نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ ”اماراتی وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زائید آل نہیان اور ان کے اسرائیلی ہم منصب گابی اشکنازی نے دونوں ملکوں کے درمیان فون رابطے کا افتتاح کیا ہے۔"
اشکنازی نے کہا کہ دونوں 'جلد ہی ملاقات‘ کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔
جمعرات کے روز ہونے والے معاہدے کے بعد دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا”متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کورونا وائرس کے علاج اور ویکسین کی تیاری کے سلسلے میں باہمی تعاون بہت جلد توسیع اور تیز کردیں گے۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور یو اے ای کے وفود آئندہ ہفتوں کے دوران ملاقات کریں گے اور وہ سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازیں شروع کرنے، سکیورٹی، ٹیلی مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، تحفظ صحت، ثقافت، ماحول اور ایک دوسرے کے ملک میں اپنے اپنے سفارت خانے کھولنے اور بعض دوسرے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ کے لیے مختلف سمجھوتوں پر دستخط کریں گے۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا تیسرا عرب ملک ہے۔ اس سے پہلے صرف مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات تھے۔ مصر نے اسرائیل کے ساتھ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ میں امن معاہدہ طے کیا تھا۔ اس کے بعد 1994ء میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔
یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کو 'معاہدہ ابراہیم‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیلی انٹلیجنس کے وزیر ایلی کوہن نے اتوار کے روز آرمی ریڈیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے نتیجے میں مزید خلیجی ریاستوں اور افریقہ کے مسلم ممالک کے ساتھ معاہدے ہو سکتے ہیں۔ کوہن کے بقول، ''بحرین اور عمان یقینی طور پر ایجنڈے میں شامل ہیں اور عین ممکن ہے کہ آئندہ سال افریقی ممالک بالخصوص سوڈان کے ساتھ ایک امن معاہدہ عمل میں آئے۔"
قبل ازیں امریکا کے ایک سینئر اہلکار نے کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس خطے کے 'متعدد‘ ملکوں کے ساتھ اس حوالے سے رابطے میں ہے۔ امریکی اہلکار نے ان ممالک کے نام ظاہر کیے بغیر یہ بتایا کہ وہ ممالک مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے عرب اور مسلم ممالک ہیں۔
ج ا / ص ز (روئٹرز، ڈی پی اے)
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔