یورو زون: آبادی 340 ملین، بے روزگاری کی شرح نو فیصد سے کم
مقبول ملک اے پی
31 اکتوبر 2017
اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے انیس ممالک پر مشتمل یورو زون میں بے روزگاری کی شرح مزید کم ہو کر اب نو فیصد سے بھی نیچے آ گئی ہے، جو یورو زون میں گزشتہ قریب نو برسوں میں ریکارڈ کی جانے والے کم ترین شرح بے روزگاری ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کے رکن ممالک کی موجودہ تعداد 28 اور اس بلاک کی مجموعی آبادی 510 ملین یا 51 کروڑ بنتی ہے۔ ان میں سے یورو زون کہلانے والے یورپی مالیاتی اتحاد میں شامل اور یورپی مشترکہ کرنسی یورو استعمال کرنے والے ممالک کی تعداد 19 اور ان کی مجموعی آبادی قریب 340 ملین یا 34 کروڑ ہے۔
برسلز میں، جہاں یورپی یونین کے صدر دفاتر قائم ہیں، منگل اکتیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں یورپی شماریاتی ادارے یورواسٹیٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سال رواں کی تیسری سہ ماہی کے دوران بھی یورو زون میں بے روزگاری میں کمی کا رجحان جاری رہا۔
اس دوران تیس ستمبر تک اس خطے میں بے روزگاری کی شرح مزید کم ہو کر 8.9 فیصد رہ گئی، جو ایک ماہ پہلے نو فیصد تھی۔ یورپی دفتر شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ یورو زون میں اقتصادی بحالی کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اس دوران اس سال جولائی سے لے کر ستمبر تک کی سہ ماہی میں اس خطے کی اقتصادی کارکردگی میں بھی 0.6 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یورو زون کی اقتصادی کارکردگی میں یہ 0.6 فیصد اضافہ اس لیے بھی حوصلہ افزا ہے کہ ماہرین کو توقع یہ تھی کہ سال رواں کی تیسری سہ ماہی میں اقتصادی نمو کی یہ شرح 0.5 فیصد رہے گی۔
اس کے علاوہ مالیاتی حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اسی یورو زون میں افراط زر کی سالانہ شرح، جو پہلے 1.5 فیصد تھی، اکتوبر میں مزید کم ہو کر 1.4 فیصد رہ گئی۔
یہ بات طے ہے کہ یورپی یونین دنیا کی بڑی سیاسی اور اقتصادی طاقتوں میں شمار ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یورو زون بھی اپنی اہمیت میں کم نہیں ہے۔ یورو زون میں ایک عام شہری کی موجودہ اوسط سالانہ آمدنی 39,200 امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ اس کے علاوہ یورو زون کی مجموعی اقتصادی پیداوار قریب 14 ٹریلین امریکی ڈالر کے برابر ہے، جو پوری دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار کا 11 فیصد بنتی ہے اور اس خطے کو اس کی جملہ سالانہ آمدنی کا قریب 27 فیصد برآمدات سے حاصل ہوتا ہے۔
جرمن برآمدات کے سُپر سٹار شعبے
آج کل جرمنی ایک ہزار ارب یورو سے زیادہ مالیت کی مصنوعات دنیا کو برآمد کر رہا ہے۔ اس پکچر گیلری میں ہم آپ کو جرمنی کے دَس کامیاب ترین برآمدی شعبوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
ہنگامہ خیز ... لیکن ٹاپ ٹین کی منزل سے ابھی دُور
ایک زبردست منظر: ایک زرعی فارم کے بالکل قریب سے گزرتا ایک کئی منزلہ بحری جہاز، جو کل کلاں کئی ہزار سیاحوں کو لے کر دُنیا کے وسیع و عریض سمندروں پر محوِ سفر ہو گا۔ جرمن شہر پاپن برگ میں تیار کردہ اس جہاز کو دریائے ایمز کے راستے بحیرہٴ شمالی میں لے جایا جا رہا ہے۔ صوبے لوئر سیکسنی کے اس بڑے کاروبار کی جرمن برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں شمولیت کی منزل لیکن ابھی کافی دُور ہے۔
تصویر: AP
غیر مقبول برآمدی مصنوعات
رائفلز ہوں، آبدوزیں یا پھر لیپرڈ نامی ٹینک، دُنیا بھر میں ’میڈ اِن جرمنی‘ ہتھیاروں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ امن پسند جرمن معاشرے کے لیے یہ کامیابی کسی حد تک تکلیف دہ بھی ہے۔ ویسے یہ کامیابی اتنی بڑی بھی نہیں کیونکہ جرمنی کے اصل برآمدی سٹار (ٹاپ ٹین فہرست میں نمبر نو اور دَس) بحری جہاز اور ٹینک نہیں بلکہ انسانوں اور جانوروں کی اَشیائے خوراک یا پھر ربڑ اور پلاسٹک سے بنی مصنوعات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
دھاتیں
جرمن محکمہٴ شماریات نے ابھی ابھی اپنے جو سالانہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن میں گزشتہ سال کی سُپر سٹار جرمن برآمدی مصنوعات میں ساتویں نمبر پر ’دھاتیں‘ ہیں مثلاً المونیم، جس کا ایک استعمال یہ بھی ہے کہ اس کی مدد سے چاکلیٹ کو تازہ رکھا جاتا ہے۔ 2015ء میں جرمنی نے تقریباً پچاس ارب یورو مالیت کی دھاتیں برآمد کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Junos
دیگر قسم کی گاڑیاں
جرمنی میں کاروں کے ساتھ ساتھ اور کئی قسم کی گاڑیاں بھی تیار کی جاتی ہیں مثلاً وہ گاڑیاں، جو کوڑا اُٹھانے کے کام آتی ہیں لیکن اسی صف میں ٹرکوں، بسوں اور اُن تمام گاڑیوں کا بھی شمار ہوتا ہے، جو کاریں نہیں ہیں لیکن جن کے چار پہیے ہوتے ہیں۔ 2015ء میں جرمنی کی بارہ سو ارب یورو کی مجموعی برآمدات میں سے ان مخصوص قسم کی گاڑیوں کا حصہ ستاون ارب یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Wolf
ادویات
جرمنی کی دوا ساز صنعت کی ساکھ پوری دُنیا میں بہت اچھی ہے۔ آج بھی اس صنعت کے لیے وہ بہت سی ایجادات سُود مند ثابت ہو رہی ہیں، جو تقریباً ایک سو سال پہلے ہوئی تھیں۔ اگرچہ بہت سی ادویات کے پیٹنٹ حقوق کی مدت ختم ہو چکی ہے تاہم جرمن ادارے اُنہیں بدستور بھاری مقدار میں تیار کر رہے ہیں۔ ان ادویات کی مَد میں جرمنی کو سالانہ تقریباً ستّر ارب یورو کی آمدنی ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Endig
برقی مصنوعات
بجلی کام کی چیز بھی ہے لیکن خطرناک بھی ہے۔ کم وولٹیج کے ساتھ رابطے میں آنا پریشانی کا باعث بنتا ہے لیکن زیادہ وولٹیج والی تاروں سے چھُو جانا موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ برقی مصنوعات بنانا مہارت کا کام ہے اور اس حوالے سے جرمن اداروں کی شہرت بہت اچھی ہے۔ 2015ء میں برقی مصنوعات تیار کرنے والے جرمن اداروں کا مجموعی برآمدات میں حصہ چھ فیصد رہا۔
تصویر: picture alliance/J.W.Alker
ڈیٹا پروسیسنگ آلات اور آپٹک مصنوعات
تقریباً ایک سو ارب یورو کے ساتھ جرمن کے اس برآمدی شعبے کا مجموعی برآمدات میں حصہ آٹھ فیصد سے زیادہ رہا۔ بہت سے جرمن ادارے گزشتہ کئی نسلوں کے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی اعلیٰ معیار کی حامل تکنیکی اور سائنسی مصنوعات تیار کر رہے ہیں، مثلاً ژَین آپٹک لمیٹڈ نامی کمپنی کا تیار کردہ یہ لیزر ڈائی اوڈ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kasper
کیمیائی مصنوعات
جرمنی کے بڑے کیمیائی ادارے ادویات ہی نہیں بنا رہے بلکہ وہ مختلف طرح سے استعمال ہونے والی گیسیں اور مائعات بھی تیار کرتے ہیں۔ یہ شعبہ سالانہ ایک سو ارب یورو سے زیادہ کے کیمیکلز برآمد کرتا ہے۔ بائر اور بی اے ایس ایف جیسے اداروں کا جرمن برآمدات میں حصہ تقریباً دَس فیصد بنتا ہے اور جرمنی کی برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں اس شعبے کا نمبر تیسرا ہے۔
تصویر: Bayer AG
مشینیں
جرمنی: انجینئروں کی سرزمین۔ یہ بات ویسے تو کہنے کو کہہ دی جاتی ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ جرمنی کی برآمدات میں مشینیں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 2015ء میں جرمنی نے مجموعی طور پر 169 ارب یورو کی مشینیں برآمد کیں۔ اس شعبے کی کامیابی کا انحصار عالمی معاشی حالات پر ہوتا ہے۔ عالمی معیشت بحران کا شکار ہو تو جرمن مشینوں کی مانگ بھی کم ہو جاتی ہے۔
... جی ہاں، کاریں۔ جرمنی کا کوئی اور شعبہ برآمدات سے اتنا نہیں کماتا، جتنا کہ اس ملک کا موٹر گاڑیاں تیار کرنے والا شعبہ۔ جرمن محکمہٴ شماریات کےتازہ سالانہ اعداد و شمار کے مطابق فوکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، پورشے اور ڈائملر جیسے اداروں کی بنائی ہوئی کاروں اور فاضل پُرزہ جات سے جرمنی کو 226 ارب یورو کی سالانہ آمدنی ہوئی۔