یورو زون میں افراط زر تاریخی حد تک زیادہ، وجہ یوکرینی جنگ
16 جولائی 2022
یورپی یونین کے کمیشن کے مطابق یوکرینی جنگ کے باعث یورپی مشترکہ کرنسی استعمال کرنے والے یورو زون میں افراط زر کی شرح اس سال تاریخی حد تک اضافے کے بعد سات اعشاریہ چھ فیصد ہو جائے گی اور اقتصادی ترقی کی شرح بھی کم رہے گی۔
اشتہار
یورپی یونین کے انتظامی بازو یورپی کمیشن کی طرف سے برسلز میں بتایا گیا کہ رواں برس یورپی مشترکہ کرنسی یورو استعمال کرنے والے 19 ممالک پر مشتمل یورو زون میں افراط زر کی شرح 7.6 فیصد کی 'تاریخی حد‘ تک پہنچ جائے گی۔
یہی نہیں بلکہ مشرقی یورپی ملک یوکرین پر روسی فوجی حملے کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ کے اثرات ہی کے نتیجے میں یورو زون کے ممالک میں اقتصادی ترقی کی شرح رواں برس اور اگلے سال بھی واضح طور پر کم ہو جائے گی۔
نئی پیش گوئی گزشتہ اندازوں سے بد تر
یورپی کمیشن نے سال 2022ء میں افراط زر سے متعلق جو نئی پیش گوئی کی ہے، وہ اس حوالے سے گزشتہ اندازوں سے بھی بری صورت حال کی عکاسی کرتی ہے۔
پچھلے ماہ جون میں یورپی کمیشن نے کہا تھا کہ اس سال یورو زون میں افراط زر کی سالانہ اوسط 6.1 فیصد رہے گی۔ اب لیکن اس شرح میں مزید اضافہ کر کے اس کے 7.6 فیصد کی نئی ریکارڈ حد تک پہنچ جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔
یورپی کمیشن کے نائب صدر والدیس دومبروفسکس کے مطابق، ''روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کے باعث یورپ اور اس کی معیشت پر مسلسل گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔‘‘
اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے یورپ میں اشیائے خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ یورپی ممالک روس کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کے نتیجے میں اپنے ہاں بنیادی ڈھانچے کی کارکردگی میں ممکنہ خلل سے نمٹنے کی تیاریاں بھی کر رہے ہیں۔
یورپی یونین کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’اقتصادی کارکردگی اور افراط زر سے متعلق ممکنہ اندازوں اور اقتصادی خطرات کی شدت کا انحصار اس بات پر ہے کہ یوکرین کی جنگ آئندہ کیا رخ اختیار کرتی ہے اور اس کے باعث یورپ کو گیس کی سپلائی کتنی متاثر ہوتی ہے۔‘‘
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: EZB
8 تصاویر1 | 8
اقتصادی شرح نمو بھی کم
یورپی کمیشن نے روسی یوکرینی جنگ کے نتیجے میں ساری یورپی یونین میں اقتصادی ترقی کی شرح بھی گزشتہ اندازوں سے کم رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ مئی میں کہا گیا تھا کہ سال 2022ء کے دوران اس بلاک میں اقتصادی ترقی کی شرح 2.7 فیصد رہے گی۔ اب لیکن کہا گیا ہے کہ اقتصادی نمو کی سالانہ شرح مزید کم ہو کر 2.6 فیصد رہ جائے گی۔
موجودہ حالات کے اثرات اتنے طویل عرصے تک دیکھنے میں آئیں گے کہ یورپی یونین میں اگلے سال بھی اقتصادی ترقی کی شرح متاثر ہو گی اور اب اس کے 2023ء میں صرف 1.4 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس سے پہلے مئی میں کہا گیا تھا کہ اگلے سال معاشی ترقی کی یہ شرح 2.3 فیصد رہے گی۔
م م / ع آ (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔