یورو کرنسی، یورپی یونین اور برطانوی خدشات
8 دسمبر 2010برطانیہ کی حکومت ہمیشہ یورو کو پاؤنڈ اسٹرلنگ کی جگہ دینے سے ہچکچاتی رہی ہے۔ یورو کو گزشتہ کئی مہینوں سے درپیش مسائل کی وجہ سے لندن حکومت کے اس فیصلے کو اور پختگی ملی ہے۔ برطانیہ میں یورپی یونین مخالف جذبات تو پہلے ہی پائے جاتے ہیں لیکن اب ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ آئر لینڈ کو دیے جانے والے یورپی امدادی پیکج میں برطانیہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی رقوم ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی ایک مقامی اخبار نے لکھا کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ ہو جانا چاہیے۔ اخبار ڈیلی ایکسپریس کے مطابق آئر لینڈ کو دیے جانے والے پیکج نے ثابت کر دیا ہے کہ لندن حکومت یورپی یونین کی غلام ہے۔ یہ صورتحال کس جانب اشارہ کر رہی ہے؟ کیا برطانیہ یورپی یونین سے الگ تو نہیں ہونا چاہتا؟ برطانیہ میں کئی سیاسی حلقے یورپی یونین اور یورو کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ان میںUKIP نامی جماعت بھی شامل ہے۔ یہ مخفف ہےUK Independence Party کا۔ اس کا موقف ہے کہ برسلز کا رویہ برطانیہ کے ساتھ مناسب نہیں ہے، اسی وجہ سے برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ ہو جانا چاہیے۔ پاؤل نٹل اس جماعت کے نائب سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کی سب سے اہم پالیسی یورپی یونین سے علٰیحدگی اختیار کرنا ہے۔
آخر یورپی یونین میں کیا برائی ہے۔ یہ نہ صرف کاروبار کے حوالے سے سود مند ہے بلکہ ایک طویل عرصے تک امن قائم رکھنے میں بھی کامیاب رہی ہے؟ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’’امن نیٹو کی وجہ سے قائم ہے۔ یہ تاثر صرف یورپی یونین کو بڑا دکھانے کے لئے دیا جاتا ہے۔ ایک تو ہم اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ یورپی یونین کی رکنیت پر برطانیہ کو پچاس ملین پاؤنڈ یومیہ خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ہمارے ٹیکس دہندگان کی رقم رومانیہ میں ہائی وے بنانے پر لگائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ رقم غیر جمہوری انداز میں خرچ کی جا رہی ہے۔ اصل طاقت ستائیس یورپی کمشنرز کے پاس ہے، جنہیں جانےکس نے منتخب کیا ہے اور جو خفیہ انداز میں ملاقاتیں کرتے ہیں‘‘۔
عالمی مالیاتی بحران سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں برطانیہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ برطانیہ نے اس بحران پر قابو پانے کے لئےنہ صرف امدادی پیکیج متعارف کرائےبلکہ کئی اہم شعبوں میں اخراجات محدود کر دیے۔ تاہم اب عوام کی شکایت ہے کہ ٹیکس دہندگان کی رقم آئر لینڈ کو دی جا رہی ہے۔ آئر لینڈ یورو زون میں بھی شامل ہے۔ اس وجہ سے یورو مخالف جذبات میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پاؤل نٹل کے بقول، ان کی جماعت کو برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کرنے کے حوالےسے ایک سنہری موقع ہاتھ آیا ہے’’ یہ مسئلہ یورو زون میں شامل ممالک کا پیدا کردہ ہے اور آئر لینڈ کی مدد بھی انہیں ہی کرنی چاہیے۔ ہم کئی سال پہلے ہی اس صورتحال کی پیشین گوئی کر چکے تھے۔ اس وقت جب ہم یہ کہتے تھے کہ یورو کرنسی کامیاب نہیں ہو گی، تو لوگ ہم پر ہنستے تھے اور ہمیں انتہاپسند کہتے تھے۔ بہرحال اب ثابت ہو گیا ہے کہ ہم ٹھیک ہی کہتے تھے‘‘۔
حال ہی میں یورپی انتخابات میں UK Independence Party کے بارہ ارکان منتخب ہوئے ہیں۔ ان انتخابات میں اس نے لیبر پارٹی کو بھی شکست دی۔ برطانوی پارلیمان میں ان کے پاس ابھی کوئی نشست نہیں ہے۔ ان کے ابھی صرف پندرہ ہزار ہی ارکان ہیں۔ اینڈی مائی کَوک ایک ماہر سیاسیات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ رہنے یا یورو کرنسی کے رائج کرنے کے بارے میں صحیح فیصلہ صرف ریفرنڈم کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔’’ اگر عوامی جائزوں کی بات کی جائے، تو زیادہ تر برطانوی باشندے ثقافتی اعتبار سے خود کو یورپ کا ہی حصہ سمجھتے ہیں۔ یورو کے حوالے سے خدشات کا معاملہ سیاسی ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئر لینڈ کے مالی بحران نے ان افراد کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے، جو یورپی یونین کے حامی ہیں۔ آئر لینڈ کا مسئلہ ایک طرح سے برطانیہ سے بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ دونوں ممالک بڑے گہرے تجارتی ساتھی ہیں۔ اسی طرح بہت سے برطانوی بینکوں نے آئرش بنکوں کو بڑے بڑے قرضے بھی دے رکھے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: امجد علی