یورپی فٹ بال چیمپئن شپ یورو کپ کا فائنل آج اتوار کی رات لندن کے ویمبلی اسٹڈیم میں کھیلا جا رہا ہے جس میں انگلینڈ اور اٹلی مدمقابل ہوں گے۔ دونوں ٹیمیں ہی کسی اہم ٹورنامنٹ کا ٹائٹل جیتنے کے لیے طویل عرصے سے بے قرار ہیں۔
اشتہار
لندن کے ویمبلی اسٹیڈیم میں یوئیفا یورو کپ 2020 کا فائنل ایک کانٹے دار مقابلہ ہو گا۔ انگلش ٹیم کو ہوم گراؤنڈ کا فائدہ ہو گا لیکن اطالوی ٹیم ابھی تک کسی بڑے ٹورنامنٹ میں انگلینڈ سے نہیں ہاری ہے۔ تاہم اس مرتبہ انگلش ٹیم کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
انگلش ٹیم کے کوچ اور سابق اسٹار کھلاڑی گیرتھ ساؤتھ گیٹ کا کہنا ہے کہ ہوم گراؤنڈ پر مداحوں کی موجودگی انگلش کھلاڑیوں کا مورال بلند کرے گی اور وہ یہ ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ انگلینڈ کی ٹیم پہلی مرتبہ یورو کپ کے فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
تاریخ رقم کرنے کی کوشش
برطانوی حکومت نے کووڈ کی عالمی وبا کے تناظر میں 60 ہزار شائقین کو اسٹیڈیم میں جانے کی اجازت دی ہے۔ ویمبلی اسٹڈیم میں 90 ہزار شائقین کی گنجائش ہے۔ اس وبا کی وجہ سے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں اور صرف وہی لوگ میدان میں داخل ہو سکیں گے جو ویکسینشن کرا چکے ہیں یا جن کے پاس کووڈ کا منفی سرٹیفیکٹ ہو گا۔
فٹ بال کھیل میں پائے جانے والے واہمات، اعتقادات اور رسومات
فٹ بال کھیل میں بھی اچھے شگون اور برے شگون کا سلسلہ موجود ہے۔ کئی اعمال کو خوش بختی کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ کئی مشہور فٹ بالر اور کوچ بھی ایسی رسومات میں حصہ لیتے ہیں۔
تصویر: Luis Acosta/AFP/Getty Images
کرسٹیانو رونالڈو: شگونوں میں جکڑے ہوئے
پرتگال کے فٹ بالر رونالڈو کئی رسومات کے باقاعدہ کاربند ہیں کیونکہ وہ انہیں اچھا شگون خیال کرتے ہیں۔ وہ ریال میڈرڈ کی بس میں سفر کرتے ہوئے ہمیشہ سب سے آخر میں بیٹھتے ہیں۔ ہوائی جہاز میں اگلی سیٹوں پر بیٹھنے کو بہتر سمجھتے ہیں۔ میدان میں داخل ہوتے وقت وہ اپنا دایاں قدم پہلے رکھتے ہیں۔ میچ کے ہاف ٹائم کے بعد وہ اپنے سر کے بال درست کرنا نہیں بھولتے۔
تصویر: Getty Images/K.Sahib
نیمار میچ سے قبل فتح کی دعا کرتے ہیں
برازیلی اسٹار نیمار جونبئر کو دنیا کے بہترین فٹ بال کھلاڑیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نیمار بھی بعض اعتقاد پر مسلسل عمل کرتے ہیں۔ وہ ہر میچ سے قبل اپنے باپ کے ساتھ مل کر جیت کی دعا کرتے ہیں۔ وہ میدان میں پہلے دایاں قدم رکھتے ہیں اور زمین کی گھاس کو چھ۔و کر پھر جیت کی دعا کرتے ہیں۔
ارجنٹائن کا یہ فٹ ہر میچ سے قبل باقاعدگی سے پیشاب کیا کرتا تھا۔ وہ خیال کرتا تھا کہ میچ سے قبل پیشاب کرنا دوسری ٹیم کے لیے برا شگون ہوتا ہے اور اُس وجہ سے دوسری ٹیم کو میچ کے دوران مشکل ہو گی۔ وہ گول کیپر تھے اور سن 1994 تک ارجنٹائنی ٹیم کا حصہ رہے۔
تصویر: picture-alliance/K.-H.Kreifelts
مانویل نوئر کا گول پوسٹ کو چھونا
جرمن ٹیم کے گول کیپر مانویل نوئر بھی خیال کرتے ہیں کہ میچ سے قبل گول پوسٹ کو چھونا خوش بختی کی علامت ہوتا ہے۔ اس لیے وہ میچ شروع ہونے سے قبل گول پوسٹ کے دونوں کناروں کو ہاتھ سے چھوتے ہیں۔ وہ یہ فعل دونوں ہاف کے شروع ہونے سے قبل باقاعدگی سے کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/Bongarts/A. Hassenstein
باستیان شوائن شٹائگر کی گیلی جرابیں
جرمن ٹیم کے سابق کپتان اور دفاعی فٹ بالر باستیان شوائن شٹائگر کو ورلڈ کپ سن 2014 میں غیر معمولی کھیل پیش کرنے پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اُن کی ایک عادت تھی کہ وہ میچ ہمیشہ گیلی جرابوں اور گیلے جوتوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gebert
لاراں بلاں اور فابیان بارٹز: سر کا بوسہ
لاراں بلاں (Laurent Blan) فرانسیسی ٹیم کے کئی برس تک کپتان رہے تھے۔ وہ ہر بین الاقوامی میچ سے قبل اپنی ٹیم کے ساتھی اور گول کیپر فابیاں بارٹز کے شیو کیے ہوئے سر کا بوسہ لیا کرتے تھے۔ وہ اس کو خوش بختی خیال کرتے تھے۔ اس عادت کو کئی دوسرے فرانسیسی کھلاڑیوں نے بھی بعد میں اپنایا۔
تصویر: picture-alliance/Sven Simon
گیرڈ مُؤلر: بڑے بوٹ بہتر ہیں
فٹ بال کھیلتے ہوئے پاؤں کے ساتھ آرام دہ جوتا اہم خیال کیا جاتا ہے۔ جرمن فٹ بالر گیرڈ مُؤلر ہمیشہ بڑے سائز کا جوتا پہن کر کھیلنے کو کامیابی کی کلید خیال کرتے تھے۔ دوسری جانب آسٹریا کے فٹ بالر ژوہان ایٹمائر قدرے تنگ جوتے کو میچ میں بہتر کارکردگی کی چابی قرار دیتے تھے۔
تصویر: pictur-alliance
گیری لنکر کی اچھوتی عادت
سن 1980 کی دہائی میں انگلینڈ کی فٹ بال ٹیم کے بہترین فارورڈ کھلاڑی گیری لنکر ہوا کرتے تھے۔ وہ پریکٹس کے دوران گول پوسٹ میں گیند ڈالنے یا پھینکنے سے کتراتے تھے اور بال ہمیشہ دور پھینکنے کو نیک شگون خیال کرتے تھے۔
تصویر: AP
ایرک کینٹونا: نہانا ضروری ہے
معالجین کا خیال ہے کہ میچ والے دن گرم پانی سے نہانا صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ فرانسیسی فٹ بالر ایرک کینٹونا ڈاکٹروں کی اس ہدایت کو بیکار خیال کرتے تھے اور میچ والے دن پانچ منٹ تک گرم پانی سے نہانے کی عادت رکھتے تھے۔ وہ میچ کے دن خاص طور پر صبح آٹھ بجے گرم پانی سے نہانے کو اپنے لیے نیک شگون خیال کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance
ریال میڈرڈ اور لہسن
کئی برس تک ہسپانوی فٹ بال کلب اس وہمے میں مبتلا رہی کہ لہسن کی ایک تری گراؤنڈ کے وسط میں دبا دینا ایک خوش بخت علامت ہے اور اس سے میچ میں کامیابی ممکن ہے۔ سن 1912 سے قبل ریال میڈرڈ کامیابیوں سے محروم تھی اور انہوں نے ایسا کیا اور جیت نے اُن کے قدم چومنے شروع کر دیے۔ لیکن یہ کلب اب شاید اس شگون کا اتنا قائل نہیں رہا۔ رواں برس بھی چیمپئنز لیگ ریال میڈرڈ نے جیتی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Pfaffenbach
رومیو انکونیتانی: ایک چٹکی نمک
رومیو انکونیتانی سولہ برس تک اٹلی کے مشہور فٹ بال کلب پیسا کے صدر رہے تھے۔ انہیں اس کا اعتقاد تھا کہ اُن کے کلب کی کامیابی میں ایک چٹکی نمک کا کردار ہوتا ہے۔ وہ میچ سے قبل میدان پر ایک چٹکی نمک بکھیرنے کو کامیابی کی کلید قرار دیا کرتے تھے۔
تصویر: Wikipedia
ماریو زاگالو کا لکی نمبر تیرہ
کئی اقوام میں تیرہ نمبر کو خوش بختی کا عدد قطعاً نہیں قرار دیا جاتا۔ برازیلی ٹیم کے کوچ ماریو زاگالو اس نمبر کے ایک طرح سے پجاری تھے۔ اس نمبر کے پیٹرن سینٹ انتھونی ہیں اور وہ ان سے شدید عقیدت رکھتے تھے۔ وہ ایک بلند عمارت کی تیرہویں منزل پر رہائش پذیر تھے۔ وہ تیرہ نمبر کی شرٹ پہن کر فٹ بال کھیلتے تھے۔ سن 1994 کا ورلڈ کپ جیتنے والی ارجنٹائنی ٹیم کے وہ کوچ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Scheidemann
کارلوس بلارڈو: پرندوں کا گوشت اور خوش بختی
ارجنٹائن کے سابق کوچ کارلوس بلارڈو کے خیال میں میچ جیتنے کے لیے پولٹری (مرغ، بطخ یا ٹرکی) کا گوشت کھانا خوش بختی کا باعث ہوتا ہے۔ اسی لیے جتنا عرصہ وہ قومی ٹیم کے کوچ رہے، کھلاڑیوں کو پولٹری کے اسٹیک مہیا کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ میچ سے قبل وہ کھلاڑیوں کو تلقین کیا کرتے تھے کہ وہ اپنی ٹوتھ پیسٹ بھی تبدیل کر کے استعمال کریں۔ سن 1986 میں ارجنٹائن نے سابقہ مغربی جرمنی کو ہرا کر ورلڈ کپ جیتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Munoz
جووانی تراپاٹونی، مقدس پانی کا چھڑکاؤ
اٹلی میں لیجنڈ کا درجہ رکھنے والے کوچ جووانی تراپاٹونی میچ سے قبل اپنے کھلاڑیوں پر مقدس پانی کے چھڑکاو کو باعث برکت خیال کیا کرتے تھے۔ ترپاٹونی ہی کی کوچنگ سے جرمن فٹ بال کلب بائرن تاریخ ساز حیثیت کا حامل ہوا۔ وہ انتہائی مذہبی شخصیت رکھتے تھے۔ میچ سے قبل میدان میں ٹیم کے داخل ہونے پر وہ مقدس پانی کا چھڑکاؤ کرتے تھے۔ مقدس پانی وہ اپنی بہن سے حاصل کرتے تھے، جو ایک راہبہ تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ژوآخم لُووو کا نیلا رنگ
جرمن ٹیم کے کوچ ژوآخج لُووو نیلے رنگ پر اعتقاد رکھتے ہیں اور اِسے خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اس باعث وہ نیلے رنگ کے دلدادہ ہیں۔ خاص طورپر میچ کے دوران نیلا کشمیرا سویٹر پہننا اُن کی عادت ہے۔ سن 2010 کے ورلڈ کپ کے دوران نیلے رنگ کے سویٹر جرمن مردوں میں بہت مقبول ہوئے تھے۔ لووو نے اپنا ایک نیلا سویٹر جرمن فٹ بال فیڈریشن کے میویزم کو بھی عطیہ کر رکھا ہے۔
انگلش ٹیم نے آخری مرتبہ جس اہم فٹ بال ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل کی تھی، وہ سن 1966ء کا عالمی مقابلہ تھا۔ تب پرانے ویمبلی اسٹیڈیم پر انگلینڈ کا مقابلہ مغربی جرمنی کی ٹیم سے ہوا تھا، جو اضافی وقت میں گیا تھا۔ 30 جولائی کو ہونے والے اس میچ میں انگلینڈ نے مغربی جرمنی کو دو کے مقابلے میں چار گول سے شکست دی تھی۔
اشتہار
اٹلی کی پیاس
دوسری طرف اٹلی 1968 کے بعد یورو کپ کا ٹائٹل اپنے نام نہیں کر سکا ہے۔ تب 10 جون کو روم میں کھیلے گئے اس فائنل میں مہمان ٹیم نے سابق یوگوسلاویہ کو ری پلے میچ میں دو صفر سے مات دی تھی۔ جرمنی میں 2006 میں ہونے والے عالمی کپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے والی اطالوی ٹیم 2018 کے عالمی مقابلوں میں کوالیفائی تک نہیں کر سکی تھی۔
تاہم اس مرتبہ اطالوی کوچ رابرٹو منوچی کی ٹیم نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 11 مختلف یورپی شہروں میں منعقد ہونے والے اس یورو کپ میں اٹلی کی ٹیم نے ثابت کیا ہے کہ نوجوان خون کے ساتھ وہ یہ ٹرافی جیت سکتی ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ اطالوی قومی فٹ بال ٹیم 2018ء سے ناقابل شکست ثابت ہوئی ہے۔
ان تمام اعدادوشمار کے باوجود انگلیڈ اور اٹلی کا فائنل میچ انتہائی کانٹے دار اور دلچسپ ہونے کی توقع ہے۔ انگلش ٹیم جہاں انتہائی اچھی کوآرڈینشن کے ساتھ کھیل رہی ہے، اس کی مثال ماضی میں کم ہی نظر آتی ہے۔ لیکن اٹلی کی ٹیم میں بھی 2006ء والی پھرتی اور تیزی نمایاں ہے۔
انگلش ٹیم کی کوشش ہو گی کہ وہ بال پر کنٹرول رکھے اور پہلے ہاف میں اطالوی کھلاڑیوں کو حملے کا موقع نا دے تاہم کاؤنٹر اٹیک پر اطالوی اسٹرائیکرز کو روکنا مہمان ٹیم کے لیے درد سر بن سکتا ہے۔ موجودہ اطالوی ٹیم جوابی حملے میں کمال رکھتی ہے۔
ژوآخم لُوو کی کوچنگ میں نشیب و فراز
ژوآخم لُوو جرمن فٹ بال ٹیم کے بارہ سال سے کوچ چلے آ رہے ہیں۔ اٹھاون سالہ اس کوچ کو روس میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں ٹیم کے ابتدائی راؤنڈ میں اخراج کے باوجود کوچنگ جاری رکھنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Hassenstein
جرمن ٹیم کی شکست سے بھی کوئی تبدیلی نہ آئی
ایسا محسوس کیا جا رہا تھا کہ روس میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کے ابتدائی گروپ لیول میں جرمنی کی ٹیم کی شکست کے بعد ژوآخم لُوو کے لیے کوچ رہنے کی مدت کم رہ گئی ہے۔ اُن کا کنٹریک سن 2022 تک ہے۔ اسی برس خلیجی ریاست قطر میں ورلڈ کپ کا انعقاد ہو گا اور وہ تب عالمی کپ جیتنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب جرمن فٹ بال فیڈرشن کی حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Hassenstein
ایک غیر شاندار کھلاڑی
ژوآخم لُوو نے بطور فٹ بال کھلاڑی کے کُل باون میچ کھیلے اور صرف سات گول کیے۔ جنوب مغربی جرمن علاقے سے تعلق رکھنے والے لُوو آئنٹراخٹ فرینکفرٹ اور کارلس روہے کی جانب سے کھیلتے تھے۔ ایک کھلاڑی کے طور پر وہ بندس لیگا کے دوسرے درجے میں زیادہ عرصہ کھیلتے رہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
کھلاڑی سے کوچ کی جانب سفر
کھلاڑی کے طور پر اپنا کیریر ختم کرتے ہوئے انہوں نے کوچ بننے کا فیصلہ کیا اور پہلی مرتبہ انہیں سوئٹزرلینڈ کے کلب ونٹرتھور کی کوچنگ تفویض کی گئی۔ اس کلب میں وہ سن 1994 تک کھیلتے رہے تھے۔ سن 1995 میں انہیں اشٹٹ گارٹ فٹ بال کلب کا نائب کوچ مقرر کیا گیا۔ یہیں پر اُن کی ملاقات تھوماس شنائیڈر سے ہوئی جو ابک سال بعد ان کے نائب کوچ بن گئے۔ وہ اشٹٹ گارٹ کے کوچ اگلے برس یعنی سن 1996 میں مقرر کیے گئے۔
تصویر: imago sportfotodienst
کوچنگ کے لیے ترکی روانگی
اُن کی کوچنگ کے دور میں اشٹٹ گارٹ نے سن 1997 میں جرمن کپ جیتا لیکن سن 1998 میں انہیں ترک شہر استنبول کے فٹ بال کلب فینر باچے نے کوچ بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ صرف ایک برس تک استنبول کے اِس کلب کے کوچ رہے۔
تصویر: Imago
استنبول کے بعد ایک اور فٹ بال کلب سے چُھٹی
وہ کچھ دیر تک کارلس روہے اور اِینسبرُوک فٹ بال کلبوں کے کوچ رہے۔ پھر وہ آسٹریا کے شہر ویانا روانہ ہو گئے۔ سن 2003 کے موسم گرما میں وہ ویانا کے کلب کے کوچ تھے لیکن چند ماہ بعد انہیں فارغ کر دیا گیا حالانہ اُن کے کلب نے آسٹریائی لیگ میں ٹاپ پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ژوگی اور ژؤرگن کا ملاپ
جرمن فٹ بال فیڈریشن نے رُئوڈی فولر کو بطور قومی کوچ فارغ کر دیا اور نیا کوچ ژؤرگن کلنزمان کو مقرر کیا۔ کلنزمان نے کوچنگ کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی ژوآخم لُووکو اپنا نائب مقرر کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Hannibal
حیرتوں نئے دور کی شروعات
جرمنی میں کھیلے جانے والے سن 2006 کے فٹ بال ورلڈ کپ میں جرمن ٹیم کے کوچ کلنزمان اور اُن کے نائب ژوآخم لُوو تھے۔ جرمن ٹیم سیمی فائنل میں اٹلی سے شکست کھا گئی۔ پہلی مرتبہ اسٹیڈیم کے باہر بھی لاکھوں جرمن شہریوں نے بڑی اسکرینوں پر اسی فٹ بال ورلڈ کپ کے میچوں کو دیکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورو چیمپئن شپ میں شکست
سن 2006 کے ورلڈ کپ کے بعد ژورگن کلنزمان مستعفی ہو گئے اور ژوآخم لُوو کو پہلی مرتبہ اپنے ملک کی قومی ٹیم کی کوچنگ کرنا پڑی۔ انہوں نے جرمن ٹیم کو سن 2008 میں کھیلی جانے والی یورپی فٹ بال چیمپئن شپ کے فائنل میں لا کھڑا کیا لیکن اُن کی ٹیم اسپین سے ایک گول سے ہار گئی۔
تصویر: Sven Simon/picture-alliance
ایک مرتبہ پھر اسپین کا سامنا
سن 2010 کا ورلڈ کپ ژوآخم لُوو کا بطور کوچ پہلا عالمی کپ تھا۔ اُن کی نوجوان ٹیم نے انگلینڈ کو ہرا کر پری کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ اس راؤنڈ میں جرمن ٹیم نے ارجنٹائن کو چار گول سے ہرا کر کوارٹر فائنل میں پہنچی۔ سیمی فائنل میں جرمن ٹیم کو تجربہ کار ہسپانوی ٹیم کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایک گول سے جیت گئی۔
تصویر: Stephane de Sakutin/AFP/Getty Images
جرمن ٹیم کی کارکردگی میں بہتری
ژوآخم لُوو کی ٹیم نے سن 2012 کی یورپی چیمپیئن شپ کا آغاز شاندار انداز میں کیا۔ یہ مشترکہ طور پر پولینڈ اور یوکرائن میں کھیلی گئی۔ جرمنی نے گروپ لیول کے تمام میچ جیت کر کوارٹر فائنل کے مرحلے میں یونان کو ہرا کر کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کی۔ جرمنی نے جب یونان کو شکست دی تو یہ انٹرنیشنل میچوں میں مسلسل 15ویں جیت تھی اور ورلڈ ریکارڈ ہے۔ کوارٹر فائنل میں اطالوی ٹیم نے جرمنی کو شکست سے دوچار کر دیا۔
تصویر: Jens Wolf/dpa/picture-alliance
پھر ورلڈ کپ جیت لیا
سن 2014 میں برازیل میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کو ژوآخم لُوو کی ٹیم نے جیتا۔ یہ اُن کے کوچنگ کا سب سے بلند مقام خیال کیا جاتا ہے۔ جرمن ٹیم نے ارجنٹائن کے خلاف فائنل میچ جیت کر عالمی کپ کی ٹرافی جیتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gebert
زوال کی ابتدا
ورلڈ کپ جیتنے کے بعد جرمن ٹیم نے سن 2016 کی یورپی چیمپئن شپ میں اپنا جیت کا سلسلہ تو مناسب انداز میں شروع کیا لیکن میزبان فرانس نے سیمی فائنل میں ژوآخم لُوو کی ٹیم کو دو گول ہرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
ایک اور قدرے کم اہمیت کا اعزاز
جرمن ٹیم نے سن 2017 کا کنفیڈریشن کپ جیت لیا۔ ورلڈ کپ سے قبل اس ٹورنامنٹ کو اہم خیال کیا جاتا ہے۔ روس میں کھیلے جانے والے کنفیڈریشن کپ کے فائنل میں ژوآخم لُوو کی ٹیم نے لاطینی امریکی ملک چلی کی ٹیم کو ایک گول سے ہرایا۔ اس جیت کے موقع پر خیال کیا گیا کہ ورلڈ کپ کا دفاع جرمن ٹیم کامیابی سے کر سکتی ہے، جو ممکن نہیں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/M.Meissner
ایک ہی برس میں سب کچھ ختم ہو گیا
سن 2018 کا ورلڈ کپ جرمن ٹیم کے لیے ایک بھیانک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ گروپ لیول کے پہلے ہی میچ میں میکسیکو نے جرمنی کو ہرا دیا۔ سویڈن سے بمشکل میچ جیتا گیا۔ پھر جنوبی کوریا نے جرمن ٹیم کو صفر کے مقابلے میں دو گول سے ہرا کر ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا۔ ژوآخم لُوو کی کوچنگ پر انگلیاں اٹھنا شروع گئیں لیکن بچت ہو گئی۔ وہ بدستور جرمن ٹیم کے قومی کوچ ہیں۔