یورپی قانون سازوں کی سعودی انسانی حقوق کے پاسبانوں کی حمایت
30 نومبر 2021یورپی اراکین پارلیمان نے خواتین کے انسانی حقوق کے عالمی دن، پیر 29 نومبر، کے موقع پر سعودی عرب میں انسانی حقوق کی علمبردار خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں 120 سے زائد یورپی اراکین پارلیمان نے ایک مکتوب پر دستخط کیے ہیں۔ مکتوب پر دستخط کرنے والوں میں آٹھ اراکین جرمنی کے ہیں جن کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے۔
اس خط میں، یورپی قانون سازوں نے سعودی حکام سے اپنے اس مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ ''ایسی تمام خواتین کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے جنہیں ان کے انسانی حقوق کی سرگرمیوں کے سبب نشانہ بنایا گیا ہے۔''
اس مکتوب میں اس بات پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے کہ جن خواتین کارکنان کو سن 2018 کے کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا انہیں، ''مسلسل عالمی دباؤ کے بعد'' رہا کر دیا گیا اور اب وہ جیلوں سے باہر ہیں۔ اس فہرست میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرکردہ کارکن سمر بدوی، نسیمہ السادہ اور لجین الھذول کے نام شامل ہیں۔
لیکن یورپی ارکان پارلیمان نے رہائی کے بعد بھی ان خواتین کارکنان پر جو سخت ترین پابندیاں عائد ہیں اور جس طرح وہ اب بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے، ''ان اقدامات سے ان کے بنیادی حقوق کی مزید خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ اس میں آزادانہ نقل و حرکت، تعلقات اور روابط استوار کرنے نیز آزادی اظہار شامل ہیں اور اس کی وجہ سے جیل سے رہائی کے بعد بھی نئی زندگی شروع کرنے کی اہم دہلیز پر کارکنان الگ تھلگ پڑ جاتی ہیں۔''
معروف خاتون کارکن لجین الھذول کو رہائی کے بعد بھی تین سال کی پابندی عائد ہونے کے ساتھ ہی پانچ برس کی سفری پابندی کا سامنا ہے۔ وہ سعودی عرب میں خواتین پر عائد ڈرائیونگ کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے اور سعودی خواتین پر مردوں کی سرپرستی کے نظام کی مخالفت کرنے کے لیے معروف ہیں۔
سعودی اصلاحات نا کافی ہیں
یورپی قانون سازوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ سعودی حکام نے خواتین کی روز مرہ زندگیوں پر عائد بہت سے پابندیوں میں سے بعض سے نجات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
سن 2018 میں سعودی خواتین کو تنہا گاڑی چلانے اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے اگلے برس ہی مملکت نے بالغ خواتین کو پاسپورٹ حاصل کرنے اور کسی مرد ''سرپرست'' کی اجازت کے بغیر سفر کرنے کی بھی اجازت دی تھی۔
لیکن ان بعض اصلاحات کے باوجود یورپی اراکین پارلیمان نے ملک کے جابرانہ نظام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نظام سے خواتین کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔
یورپی اراکین پارلیمان نے اپنے مکتوب میں کہا ہے، ''یہ اقدامات درست، تاہم نا کافی ہیں۔ مردوں کی سرپرستی کے نظام کے ساتھ ہی نا فرمانی سے متعلق دیگر قوانین خواتین کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو منفی طور پر متاثر کرتے رہتے ہیں۔''
(جینیفر کیمینو گونزالیز) ص ز/ ج ا