براعظم یورپ کی مجموعی اقتصادیات میں رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں بھی معاشی سست روی کے آثار واضح طور پر دیکھے گئے۔ دوسری جانب یورپی اقوام کو بعض تجارتی تنازعات کا بھی سامنا ہے۔
اشتہار
رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں یورپ کے انیس ممالک میں اقتصادیات کی رفتار میں سست روی دیکھی گئی۔ اس باعث یورپی کرنسی یورو کی سرگرمیاں بھی عالمی منڈیوں کے مقابلے میں کمزور رہی ہیں۔ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں یورو کی قدر میں 0.4 فیصد کی کمی ہوئی تھی اور دوسری سہ ماہی اس میں معمولی سے بہتری پیدا ہوئی اور کمی کی شرح 0.3 فیصد رہی۔
عالمی تجارت میں پائے جانے والے تنازعات اور محصولات میں اضافے سے یورپ کی مجموعی اقتصادی آؤٹ لُک مناسب دکھائی نہیں دے رہی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کا زیادہ انحصار اِس کی تجارت پر ہے۔ اس تناظر میں اقتصادی ماہرین اس پر بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ سست ہوتی ہوئی اقتصادیات کسی کسادبازاری کا پیش خیمہ تو نہیں ہیں؟
معاشی سست روی کے باوجود ابھی تک یورپ کی شرح پیدوار مثبت ہے اور یہی بات انتہائی حوصلہ افزاء محسوس کی جا رہی ہے۔ اقتصادی صورت حال میں سست روی بہت غیرمحسوس انداز میں پیدا ہو رہی ہے اور اس باعث یورپی مرکزی بینک نے ابھی تک اسے عمل کو متحرک کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ بینک کے ماہرین یقینی طور پر اس معاشی سلسلے پر ضرور نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ یورپی مرکزی بینک پہلے سے متعارف کرائی گئی مالی مراعات کو آہستہ آہستہ واپس لینے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بینک کا کہنا ہے کہ وہ مختلف ممالک کے بانڈز خریدنے کا سلسلہ جلد ترک کر دے گا۔
بینک ذرائع کے مطابق رواں برس کے اختتام پر نرم شرائط پر مالی قرضوں کو امداد کی صورت میں متعارف کرانے کا بھی امکان ہے۔ اس کے علاوہ بینک نے اگلے سال موسم گرما میں شرح سود میں اضافے کا عندیہ بھی دیا ہے اور سست روی کی شکار اقتصادی سرگرمیوں میں اس کا سودمند ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
یورپی مرکزی بینک کے سربراہ ماریو دراگی کے مطابق رواں برس کے پہلی ششماہی میں معیشت میں سست روی حقیقت میں گزشتہ برس کئی ممالک میں انتہائی بلند شرح پیداوار کا نتیجہ بھی ہے۔ دوسری جانب مختلف بزنس سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یورپی تاجر برادری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایلومینیم اور فولاد اور ان سے بننے والی مصنوعات پر اضافی محصولات کے نفاذ پر یقینی طور پر پریشان ہے۔
تاجر برادری کا خیال ہے کہ اضافی محصولات کے اثرات بہت دور رس ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب یورپی ممالک میں شرحِ بیروزگاری اپنی سابقہ سطح پر ہی برقرار ہے اور اس میں اضافہ نہ ہونا بھی امید افزاء خیال کیا گیا ہے۔
یورپ کے کماؤ دارالحکومت
بہت سے یورپی ملکوں کے دارالحکومت معاشی سرگرمیوں کے اہم مراکز بھی ہیں۔ کولون کے انسٹیٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ (IW) نے ایک جائزہ مرتب کیا ہے کہ ان دارالحکومتوں کی کمائی کے بغیر ان ممالک میں فی کس آمدنی کتنی رہ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
برلن پر انحصار؟
جرمنی کا دارالحکومت برلن ایک استشنیٰ ہے۔ IW کے حساب کتاب کے مطابق برلن کو اگر نکال دیا جائے تو جرمنی میں فی کس آمدنی 0.2 فیصد بڑھ جائے گی۔ دیوار برلن گرائے جانے کے بعد سے اس شہر میں نئی صنعتیں تو لگی ہیں مگر روزگار کے مواقع زیادہ نہیں بڑھ پائے۔ یہاں بے روزگاری کی شرح مجموعی قومی اوسط سے زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/chromorange
پیرس، فرانس کا دل
فرانس میں صورتحال مختلف ہے۔ پیرس ہر لحاظ سے اس ملک کا دل ہے۔ Total, Renault اور Axa جیسی بڑی کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز اس شہر یا اس کے قریب واقع ہیں۔ پیرس سیاحوں کے لیے بھی ایک مقناطیس کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اس کے ارد گرد کا علاقہ صنعتی طور پر انتہائی مستحکم ہے۔ پیرس کے بغیر فرانس میں فی کس آمدنی 15 فیصد کم ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images
ناگزیر لندن
برطانیہ بھی اپنے دارالحکومت لندن کے بغیر کافی غریب ہو جائے گا، یعنی قریب 11 فیصد۔ نیویارک کے علاوہ لندن کا مالیاتی شعبہ دنیا میں اہم ترین گردانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ریئل اسٹیٹ اور آئی ٹی کے شعبے اس شہر کو معاشی حوالے سے بھی انتہائی اہم بناتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایتھنز، یونانی معیشت کا ستون
یونان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی دارالحکومت ایتھنز میں آباد ہے۔ دارالحکومت کے گرد ونواح کا علاقہ بہت سی کمپنیوں کا گڑھ ہے جبکہ یہاں شپ یارڈز اور ٹیکنالوجی کی بھی کئی کمپنیاں موجود ہیں۔ ایتھنز ہزاروں برسوں سے یونانی تہذیب کا مرکز ہے۔ آج اس کے بغیر یونانی کی فی کس آمدنی 20 فیصد تک کم ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
بیلجیم برسلز کے بغیر؟
دارالحکومت برسلز بیلجیم کے تین حصوں میں سے سب سے چھوٹا علاقہ ہے مگر معاشی اعتبار سے اہم ترین مرکز ہے۔ اگر برسلز کو نکال دیا جائے تو بیلجیم کی فی کس آمدنی نو فیصد تک کم ہو جائے گی۔ برسلز کی 90 فیصد معیشت کا دار و مدار سروس سیکٹر پر ہے۔ اس شہر میں یورپی یونین کے کئی ادارے اور نیٹو کے ہیڈکوارٹرز بھی موجود ہیں، جن کی وجہ سے یہاں معاشی سرگرمی کافی زیادہ رہتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
تمام راستے روم کو جاتے ہیں
روم کے بغیر اٹلی میں فی کس آمدنی صرف دو فیصد کم ہو گی۔ یہ شہر پبلک سیکٹر کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے جبکہ سیاحت کا بھی اہم مرکز ہے۔ مگر زیادہ تر اطالوی صنعتیں ملک کے شمال میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hahn
کوپن ہیگن: چھوٹی جل پری کا گھر
اس کے علاوہ ڈنمارک کا دارالحکومت دنیا کی سب سے بڑی بحری مال بردار کمپنی Maersk اور کارلسبرگ کا آبائی شہر بھی ہے، جو ایک بہت بڑی بیئر کمپنی ہے۔ یہاں کئی کیمیکل اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز بھی ہیں۔ ڈنمارک کی زیادہ تر صنعت بھی دارالحکومت کے گرد ونواح میں ہی قائم ہے۔ IW کے مطابق اگر کوپن ہیگن کو نکال دیا جائے تو ڈنمارک میں فی کس آمدنی 13 فیصد کم ہو جائے گی۔