اگلے ہفتے یورپی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ یورپی انتخابات میں حصہ لینے والے سرکردہ امیدواروں کے مابین گزشتہ شب ایک مباحثے کے دوران دلائل کا تبادلہ ہوا۔ ژان کلود ینکر کا جانشین کون ہو گا؟
اشتہار
یورپی یونین کے انتخابات میں حصہ لینے والے سرکردہ رہنما کئی اہم مسائل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ان میں ہجرت، بڑھتی ہوئی قوم پرستی، تحفظ ماحول اور ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ نازک تعلقات۔ یورپی کمیشن کی سربراہی کے چھ اہم امیدواروں نے گزشتہ روز ہونے والے مباحثے میں انہی موضوعات پر اپنے موقف کو واضح کیا۔
اس دوران تین صحافیوں نے ان امیدواروں سے ان کی مستقبل کی پالیسی کے بارے میں سوالات پوچھے۔ ماحول دوست گرین پارٹی اور سوشل ڈیموکریٹس نے برسلز میں ہونے والے مباحثے میں تحفظ ماحول کی خاطر مزید موثر اقدامات مرنے پر زور دیا۔ قدامت پسند منفریڈ ویبر نے تاہم دوسری جانب ملازمتوں کی کمی سے خبردار کیا۔
ڈچ سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فرنز ٹمرزمان نے اس موقع پر کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ یورپی یونین کا ایک ایسے امریکی صدر سے واسطہ پڑا ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ ایک کمزور اور منقسم یورپ امریکا کے حق میں ہے،’’یہ ہمارے لیے بہت خطرناک ہے‘‘۔
اس مباحثے کے دوران تقریباً تمام امیدواروں نے یہ سوال کیا کہ ٹرمپ جیسے ایک ایسے صدر کے ساتھ کیسے معاملات طے کیے جائیں، جس نے یورپی فولادی صنعت پر اضافی محصولات عائد کیے ہیں اور وہ یورپی کار ساز صنعت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہو۔ ساتھ ہی امریکی صدر کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ یورپ دفاعی شعبے میں اپنے اخراجات بڑھائے۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
یورپی کمیشن کی سربراہی آج کل ژان کلود ینکر کے پاس ہے۔ اگلے ہفتے تیئیس سے چھبیس مئی تک ہونے والی یورپی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد کی تعداد چار سو ملین ہے۔ یورپی پارلمیان یورپی یونین کا جمہوری طور پر منتخب کیا جانے والا واحد ادارہ ہے۔ عام طور پر ان انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب کم ہی رہتا ہے۔
قبل از انتخابات کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق قوم پرست اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی زیادہ ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ تاہم بڑی جماعتیں نشستیں کم ہونے کے باوجود بھی پارلیمان میں اکثریت میں ہی رہیں گی۔
تاہم یہ ابھی غیر واضح ہے کہ گزشتہ شب منعقد ہونے والے اس مباحثے کو دیکھنے والوں کی تعداد کتنی تھی۔ کئی ممالک کے سرکاری ٹیلی وژن چینلز اور کچھ ویب سائٹس نے اسے براہ نشر کیا تھا۔
یورپی اقدار کیا ہيں؟
آزادی، برابری، جمہوریت: یورپی اقدار اکثر سننے میں بہت مقدس لگتی ہیں لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ اگر یورپ میں ایک سو افراد رہائش پذیر ہوں، تو مختلف معاملات پر ان کی رائے کيا ہو سکتی ہے۔
کيا مرد، خواتین کی نسبت بہتر سیاسی رہنما ہوتے ہيں؟
یورپی پارلیمان کے انتخابات سے قبل یورپی اقدار کے بارے میں بحث ايک مرتبہ پھر چھڑ گئی ہے۔ لیکن در حقیقت یورپی اقدار ہیں کیا؟ ایک سروے کے مطابق ہر 100 میں سے 29 یورپی شہریوں کی رائے میں مرد، خواتین کی نسبت بہتر سیاسی رہنما ثابت ہوتے ہیں۔
سیاسی تشدد اور رشوت ناقابل قبول
یورپی شہریوں کی اکثریت سیاسی تشدد کے خلاف ہے اور رشوت کی بھی شديد مخالفت کرتی ہے۔ ’یورپین ویلیوز اسٹڈی‘ میں آسٹریا، بیلاروس، بلغاریہ، کروشیا، چیک ری پبلک، جرمنی، آئس لینڈ، پولینڈ، روس، سلوواکیہ، سلوینیا، ہسپانیہ، سوئٹزرلینڈ اور ہالينڈ کے شہریوں کے خیالات جانے گئے۔
ویڈیو کے ذریعے نگرانی
لگ بھگ نصف یورپی شہریوں کا کہنا ہے کہ عوامی مقامات پر کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جانی چاہیے۔ لیکن نصف شہریوں کی رائے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
مذہب پر بھی رائے منقسم
ہر ایک سو افراد میں سے صرف 38 جنت پر یقین رکھتے ہیں، جن ميں سے تينتيس خود کو مذہبی تصور کرتے ہيں جبکہ بقيہ نہيں۔ ہر ایک سو میں سے صرف 29 افراد کو دوزخ کے ہونے پر یقین ہے۔
ہم جنس والدین
آئس لینڈ میں ہر ایک سو میں سے 88 افراد کی رائے ميں ہم جنس پرست جوڑوں کو بچے گود لينے اور ان کی پرورش کرنے کی اجازت ہونی چاہيے۔ روس میں صرف دس فیصد اس رجحان کی حمایت کرتے ہیں۔ تحقیق نے یہ ثابت کر ديا ہے کہ ہم جنس پرست والدین بھی بچوں کی تربیت عام والدین کی طرح ہی کر سکتے ہيں۔
پچیس فیصد مسلمانوں کو بطور پڑوسی نہیں چاہتے
اس سروے کے مطابق ہر ایک سو میں سے پچیس شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ تارکین وطن اور مسلمانوں کو اپنے پڑوسی کے طور پر نہیں چاہتے۔ ایک سو میں سے 12 نے کہا کہ وہ یہودی کے ساتھ بطور پڑوسی رہنا پسند نہیں کریں گے۔ صرف پانچ فیصد افراد ایسے تھے جو مسیحیوں کو بطور پڑوسی پسند نہیں کرتے۔
یورپی اقدار
یہ تمام اعداد و شمار ’یورپیئن ویلیوز اسڈی‘ سے حاصل کیے گئے ہيں۔ اس سروے میں ہر دس سال بعد یورپی شہریوں سے سینکڑوں سوالات پوچھے جاتے ہیں تاکہ تنوع، سیاست اور دیگر معاملات پر ان کی رائے جانی جا سکے۔ اس رپورٹ ميں شامل تحقيق کا آغاز 2017ء میں ہوا تھا۔