یورپی انٹرنیٹ کمپنیوں اور سکیورٹی اداروں کے مابین تعاون
19 اکتوبر 2015یورپی یونین کی طرف سے یہ اقدام ایک ایسے وقت اٹھایا گیا ہے جب شام اور عراق میں سرگرم جہادی تنظیم داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے یورپی باشندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے نئے جہادیوں کی بھرتی کے لیے سوشل میڈیا جہادی تنظیموں کا طاقت ور ہتھیار بن چکا ہے۔
یورپی یونین کے کمشنر برائے داخلی امور دیمیتریس آوراموپولُوس کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمیں انٹرنیٹ کے غلط استعمال کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کو روکنا ہوگا، اور یہی وجہ ہے کہ ’یورپی یونین انٹرنیٹ فورم‘ قائم کیا جا رہا ہے۔‘‘
دیمیتریس آوراموپولُوس کا بیلجئم کے دارالحکومت برسلز میں وزرائے داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں باقاعدہ طور پر دو دسمبر کو اس انٹرنیٹ فورم کا افتتاح کروں گا اور انٹرنیٹ کے تمام بڑے کھلاڑی اس میں شامل ہوں گے۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ اس فورم میں سول سوسائٹی کے گروپوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
تاہم ان کی طرف سے فی الحال یہ نہیں بتایا گیا کہ کون کون سی انٹرنیٹ فرمیں سکیورٹی اداروں کو ڈیٹا فراہم کریں گی۔ تاہم اس سلسلے میں گزشتہ برس اکتوبر کے دوران یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کی لکسمبرگ میں، جن انٹرنیٹ کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی تھی، ان میں گوگل، فیس بک، ٹوئٹر اور مائیکروسافٹ بھی شامل تھیں۔
دیمیتریس آوراموپولُوس کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے جن کمپنیوں سے بات چیت کی ہے وہ سب ہمارے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ کمپنیاں خود بھی آن لائن انتہاپسندی کے آسیب سے متاثر ہو رہی ہیں۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ اس انٹرنیٹ فورم کے تحت اس پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جائے گا جس کی وجہ سے یورپی اور غیرملکی عسکریت پسند دنیا کے مختلف حصوں سے جنگ زدہ علاقوں میں پہنچ رہے ہیں۔ یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ ہزار سے زائد یورپی شہری شام اور عراق میں جا کر داعش کے ہمراہ لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
برلن میں قائم فاؤنڈیشن برائے سائنس اور سیاست ایک ایسا ادارہ ہے جو گزشتہ قریب پندرہ سال سے ملک میں جہادی پروپیگنڈے پر تحقیق کرتا آ رہا ہے۔ اس ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز تک اس طرح کے پروپیگنڈے میں انٹرنیٹ کوئی زیادہ بڑا کردار ادا نہیں کرتا تھا۔
اب لیکن حالات بدل چکے ہیں، جرمنی جیسے ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ہر کسی کی دسترس میں ہے اور انٹرنیٹ کا تقریباﹰ ہر صارف فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک عمومی رویہ یہ ہے کہ فیکس کی جگہ فیس بک نے لے لی ہے اور دہشت گردانہ سوچ کو جتنی بھی ہوا مل رہی ہے اُس میں آن لائن فورمز اور پروپیگنڈا بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔