’یورپی بحران سے دنیا کو افغان مہاجرین بھی دوبارہ یاد آ گئے‘
شمشیر حیدر19 جون 2016
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فیلیپو گرانڈی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو بے گھر ہونے والے افغانوں کی یاد صرف اسی وقت آئی جب انہوں نے مہاجرین کے بحران کے دوران یورپ کا رخ کرنا شروع کیا۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق گرانڈی نے یہ بات 18 جون کے روز تہران میں ایرانی نائب وزیر داخلہ حسین ذوالفقاری کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین اس خطے کا پہلی مرتبہ دورہ کر رہے ہیں جس کا بنیادی مقصد علاقے میں موجود افغان مہاجرین کی صورت حال کا جائزہ لینا ہے۔
گرانڈی کا کہنا تھا، ’’میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اقوام متحدہ کا کمشنر برائے مہاجرین بننے کے پہلے سال کے دوران میں افغان مہاجرین کی حالت زار اجاگر کروں گا۔ بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری ان لاکھوں افغان مہاجرین کو بھلا چکی تھی۔‘‘
گزشتہ برس بارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن نے یورپ کا رخ کیا تھا، جن میں سب سے زیادہ تعداد شامی باشندوں کی تھی تاہم افغان مہاجرین کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر رہی۔ گرانڈی نے اس حوالے سے کہا، ’’جب افغان مہاجرین نے پچھلے سال یورپ کا رخ کرنا شروع کیا تو دنیا کو ایک بار پھر اچانک ان کی یاد آ گئی۔‘‘
ایران میں تیس لاکھ سے زائد افغان تارکین وطن رہ رہے ہیں جن میں سے صرف ایک ملین مہاجرین قانونی اور رجسٹرڈ ہیں۔ عالمی ادارے کے کمشنر برائے مہاجرین نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان مہاجرین کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے تہران حکومت کی مدد کرے بصورت دیگر یہ مہاجرین دوسرے ممالک کا رخ کر سکتے ہیں۔
فیلیپو گرانڈی کا کہنا تھا، ’’پچھلے سال ہم نے یہ رجحان دیکھا ہے کہ ہزاروں افغان مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ یہ صورت حال نہ صرف ان مہاجرین کی زندگیوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس رجحان سے دیگر ممالک بھی عدم استحکام کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘
مہاجر خاندان افغان، مسئلہ مشرقی، مسئلہ مغرب میں
03:23
عالمی ادارے کے اس کمشنر نے عالمی برادری سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں تاکہ افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس اپنے ملک جا سکیں۔ انہوں نے تہران حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کو فراہم کردہ سہولیات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ سہولیات ’دنیا کے کئی دیگر ممالک کی نسبت بہت بہتر ہیں‘۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے گزشتہ برس جاری کیے گئے ایک فتوے میں کہا تھا کہ ملک میں موجود تمام افغان مہاجرین کے بچوں کو اسکولوں میں داخل کیا جائے۔ گرانڈی نے اس بارے میں کہا، ’’ان اقدامات کا شمار مہاجرین کے لیے ان گنے چنے لیکن بہت اچھے اقدامات میں ہوتا ہے جو حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں کہیں بھی دیکھے گئے۔‘‘
اس دوران ایران نائب وزیر خارجہ حسین ذوالفقاری نے صحافیوں کو بتایا کہ تہران حکومت نے یورپ اور دیگر ممالک کی جانب غیر قانونی مہاجرت روکنے کے لیے کافی اخراجات برداشت کیے ہیں۔ ذوالفقاری کا کہنا تھا، ’’گزشتہ برس کے دوران ایرانی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے سات لاکھ 53 ہزار افراد کو گرفتار کر کے واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیجا گیا۔‘‘
ذوالفقاری کا یہ بھی کہنا تھا کہ مہاجرین کا بحران صرف اسی وقت حل ہو سکتا ہے جب ان ممالک سے، جہاں سے زیادہ تر مہاجرین ہجرت کرتے ہیں، غربت اور غیر یقینی صورت حال کو ختم کیا جائے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔