ہفتہ دس اگست کی سہ پہر دو جرمن نوجوانوں نے بوتل مار کر یورپی تیتروں کی نایاب نسل کے ایک پرندے کو ہلاک کر دیا۔ ان دونوں نوجوانوں نے ایک پارٹی میں شرکت کے بعد واپس جاتے ہوئے اس پرندے کو مبینہ طور پر ہلاک کیا۔
اشتہار
ان دونوں افراد پر جنگی مرغ یا جنگلی گراؤز کی ایک قسم جسے یورپی تیتر (Capercaillie) بھی کہا جاتا ہے، کو ہلاک کرنے کے الزام کی تصدیق ٹیٹی زے نوئے اسٹڈ (Titisee-Neustadt) کی پولیس نے کی ہے۔ ان نوجوانوں کی عمریں بیس اور بائیس برس بتائی گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق پرندے کو ہلاک کرتے وقت یہ دونوں نشے میں تھے۔
اس علاقے کی پویس نے یہ بھی بتایا کہ ان دونوں نوجوانوں نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ انہوں نے پرندے کو اُس وقت ہلاک کیا جب اُس نے حملہ کیا تھا۔ پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے بیان میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اپنی حفاظت کے تحت پرندے کو بوتل سے پرے ہٹانے کی کوشش کی گئی اور ضرب شدید لگنے سےیہ پرندہ مارا گیا۔
پرندے پر بوتل سے حملے کرنے کی کارروائی کئی لوگوں نے دیکھی۔ ان افراد کو پرندے کے مرنے کا گہرا رنج ہوا اور نوجوانوں کی اس حرکت پر شدید غصہ بھی آیا۔ انہوں نے مشتعل جذبات کے تحت نشے میں دھت نوجوانوں پر حملہ کر دیا۔
پولیس کی رپورٹ کے مطابق مشتعل افراد نے پرندے کو ہلاک کرنے والے دونوں نوجوانوں کو زدوکوب کیا اور اُن پر غصے کے اظہار کے طور پر بیئر بھی گرائی۔ مشتعل ہجوم نے ان دونوں کو مقید کر کے پولیس کو اطلاع بھی دی۔
پولیس نے نایاب یورپی تیتر کی ہلاکت کے واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ دونوں افراد پر تشدد کرنے کے واقعے میں ملوث کئی افراد کو پوچھ گچھ کے لیے شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ ان افراد کو تفتیش شامل کرنے کی وجہ کسی دوسرے کے جسم پر ضربات لگانے کے تناظر میں ہے۔
یورپی تیتر ایک نایاب ہوتا پرندہ ہے۔ جرمنی اور یورپ بھر میں مسلسل اس کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ یورپی تیتر کا نر اپنی علاقائی حدود میں سرگرم ہوتا ہے اور گزرنے والے افراد کو غور سے بھی دیکھتا ہے اور یہ بسا اوقات راہ گیروں کو ڈرانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
ویسے جرمن پہاڑی علاقوں میں یورپی تیتر اور انسانوں میں آمنا سامنا کوئی معمول کی بات نہیں ہے۔ جرمنی کے جنگلاتی علاقے بلیک فاریسٹ میں یورپی تیتر کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے پرندوں کی اقسام کے لیے محفوظ علاقہ بنانے کے جامع منصوبے پر عمل جاری ہے۔
سرینواس موزمدار (عابد حسین)
غیر قانونی شکار، جنگلی حیات کے لیے خطرہ
ہاتھی دانت، جانوروں کی کھال اور دیگر حیوانی اجزاء سے تیار کردہ اشیاء کے کاروبار پر قانونی پابندی کے باجود یہ کاروبار ترقی کر رہا ہے۔ خاص طور پر افریقہ اور ایشیا میں اس کاروبار سے اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP
کوئی امکان نہیں
غیر قانونی شکار کرنے والوں کے ہاتھوں کوئی جانور محفوظ نہیں۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے WWF کے مطابق افریقی ہاتھیوں کی نسل خاص طور پر خطرے میں ہے۔ صرف گزشتہ دو برس کے دوران کم از کم 60 ہزار افریقی ہاتھی ہلاک کر دیے گئے۔ 100 برس قبل براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 50 لاکھ کے قریب تھی جو کم ہو کر اب چار لاکھ 70 ہزار سے چھ لاکھ 90 ہزار کے درمیان رہ گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
امارت کی نشانی
ہاتھیوں کو ہلاک کرنے کی سب سے بڑی وجہ ان کے دانت ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر ہاتھی دانت سے بنی اشیاء کی برآمد پر پابندی ہے۔ تاہم گزشتہ برس یعنی 2013ء کے دوران حکام نے 42 ٹن ہاتھی دانت ضبط کیے۔ چین جہاں ہاتھ دانت کی بنی اشیاء کی بہت زیادہ مانگ ہے، وہاں ہاتھی دانت کے بدلے سونا تک دیا جاتا ہے۔ کھدائی کے ذریعے نقش ونگار والی ہاتھی دانت سے بنی اشیاء چین میں امارت کی نشانی سمجھی جاتی ہیں۔
تصویر: Getty Images
گینڈے کا سینگ
ہاتھیوں کی طرح گینڈے بھی غیر قانونی شکار کے سبب شدید خطرات کا شکار ہیں۔ گینڈے کے تجارتی مقاصد کے لیے شکار اور اس کے جسمانی اجزاء سے بنی اشیاء پر پہلے ہی ایشیا اور افریقہ میں پابندی عائد ہے۔ اس جانور کو کئی طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔ شمالی سفید گینڈے کی نسل تو اب تقریباﹰ ختم ہی ہو چکی ہے۔
تصویر: STRINGER/AFP/Getty Images
گینڈے کا سینگ علاج کے لیے
گینڈے کے جسمانی اعضاء سے بنی اشیاء کے سب سے زیادہ گاہک بھی چین اور دیگر ایشیائی ممالک ہی میں موجود ہیں۔ گینڈے کے سینگ کو روایتی ایشیائی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے، جو بخار حتیٰ کہ کینسر تک کے علاج کا ذریعہ بھی سمجھی جاتی ہیں۔ گینڈے کے سینگ کی قیمت بھی ہاتھی دانت کی طرح کافی زیادہ ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
انتہائی پسند کی جانے والی کھال
جن جانوروں کی کھال بہت بیش قیمت سمجھی جاتی ہے ان میں شیر کی کھال بھی شامل ہے۔ جنگلی شیروں کی تعداد اب محض 3200 کے قریب رہ گئی ہے۔ 100 برس قبل ان کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ شیروں کے شکار کے بعد تیار کردہ مصنوعات کی فروخت پر پابندی 1975ء میں عائد کی گئی تھی۔ غیر قانونی شکار کے علاوہ جنگلات کا کم ہوتا ہوا رقبہ بھی ان شیروں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
تصویر: Getty Images
ریچھ بھی خطرے میں
ریچھ بھی غیر قانونی شکاریوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ ان کے جسمانی اعضاء کو نہ صرف بطور ٹرافی استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان کے بعض اعضاء ایشیائی ادویات میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر ریچھ کے شکار پر پابندی عائد نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قطبی ریچھ
قطبی ریچھ کی نسل کو سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہے۔ قطب شمالی پر پگھلتی ہوئی برف کے باعث ان کا رہائشی علاقہ سکڑتا جا رہا ہے۔ اس وقت ان کی تعداد 20 سے 25 ہزار کے قریب ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال قریب 700 قطبی ریچھوں کا شکار کیا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/st__iv
خطرناک اعتقاد
پہاڑی گوریلا جانوروں کی ان اقسام میں شامل ہے جو ناپید ہو جانے کے شدید خطرات سے دو چار ہیں۔ ان کی نسل اگلے 15 برسوں کے دوران بالکل ختم بھی ہو سکتی ہے۔ بندروں اور گوریلوں کا شکار عام طور پر ان کے گوشت کے لیے کیا جاتا ہے۔ بعض مقامی لوگوں کا اعتقاد ہے کہ گوریلے کا گوشت کھانے سے ان میں گوریلوں جیسی طاقت پیدا ہو سکتی ہے۔
تصویر: CC/by-sa-sentouno
بچاؤ کا ایک طریقہ فارمنگ
مگر مچھ شکار کیے جانے کے باعث لمبے عرصے سے معدومیت کے خطرے دو چار ہیں۔ مگر مچھ کی کھال کافی زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ اب اس جانور کو خطرے سے بچا لیا گیا ہے۔ مگر مچھوں کی فارمنگ کے ذریعے پیداوار بڑھا کر اس کی کھال کی صنعت کی ضرورت پوری کی جا رہی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
ہجرت کے دوران ہلاکت
یورپ میں ہجرت کرنے والے پرندوں کو سب سے بڑا خطرہ غیر قانونی شکاریوں سے لاحق ہوتا ہے۔ افریقہ سے واپس آنے والے پرندوں کو یا تو شکار کر لیا جاتا ہے یا پھر بڑے بڑے جالوں کے ذریعے پکڑ لیا جاتا ہے۔ قدرتی ماحول کے تحفظ کی جرمن تنظیم NABU کے مطابق افزائش نسل کے لیے ہجرت کرنے والے پرندوں کی بہت سے اقسام خطرات کا شکار ہیں۔
تصویر: AP Photo/David Guttenfelder on assignment for National Geographic Magazine