یورپی خلائی ادارے میں بھرتی، چھبیس نئے خلا بازوں کی تلاش
1 اپریل 2021
یورپی خلائی ادارے ای ایس اے نے مستقبل کے خلا بازوں کی نئی بھرتیاں شروع کر دی ہیں۔ اس ادارے کو مستقبل کے اپنے خلائی مشنوں کے ارکان کے طور پر چھبیس نئے خلا بازوں کی تلاش ہے۔
اشتہار
یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) کی طرف سے بدھ اکتیس مارچ کو شروع کیے گئے نئی بھرتیوں کے عمل میں اس ایجنسی کو اپنے لیے نا صرف آئندہ خلائی عملے کی تلاش ہے بلکہ ساتھ ہی یہ ادارہ اپنے لیے زیادہ تنوع کی کوشش میں بھی ہے۔
خود کو ممکنہ طور پر اس بھرتی کے لیے موزوں امیدوار سمجھنے والے افراد اس ادارے کو اپنی باقاعدہ درخواستیں اس پتے پر آن لائن بھیج سکتے ہیں: https://www.esa.int/About_Us/Careers_at_ESA/ESA_Astronaut_Selection۔ یہ گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے میں پہلا موقع ہے کہ ای ایس اے نے یورپی ممالک سے اپنے لیے خلا بازوں کی بھرتی شروع کی ہے۔
اس بارے میں یورپی خلائی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ژان ووئرنر نے نئی ریکروٹمنٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ''ہمارے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ای ایس اے کے آئندہ خلائی مشنوں کے لیے نئے خلا باز بھرتی کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم مقررہ تعداد میں بہترین امیدواروں کا انتخاب کرنے میں کامیاب رہیں گے۔‘‘
خلائی سیاحت: اسپیس شپ ٹو ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر
انگریز موجد رچرڈ برینسن نے خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر دنیا کے لیے پیش کر دیا ہے۔ یہ خلائی جہاز مسافروں کو لے کر زمین کے مدار میں جائے گا۔ اس سیاحت کے لیے فی مسافر ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
وسیع خلا کا ایک مختصر نظارہ
ممتاز انگریز موجد اور کاروباری شخصیت سَر رچرڈ برینسن خلائی سیاحت کے لیے متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ استعمال کریں گے۔ اب تک چھ سو امیر افراد نے بکنگ کروا رکھی ہے۔ ایک مسافر اس سیاحت کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Drew
خلا میں تیرنا
ورجن گیلکٹک کی ہر پرواز پر صرف چھ مسافروں کی گنجائش ہے۔ یہ تمام مسافر مکمل خلائی لباس پہن کر اپنی سیٹ پر بیٹھیں گے۔ ایک مرتبہ جب جہاز مدار میں پہنچ جائے گا تب وہ پوری طرح الٹا ہو جائے گا تا کہ تمام مسفر خلا سے زمین کا نظارہ کر سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
انفرادی ضروریات کی حامل سیٹ
خلائی جہاز پر سیاحوں کی سیٹیں ہر وقت کشش ثقل قوت کو برقرار رکھنے کی حامل ہوں گی۔ ان سیٹوں پر بیٹھے خلائی سیاح لائیو فلائیٹ ڈیٹا کے ساتھ بھی منسلک رکھے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
واضح منظر
خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں بارہ کھڑکیاں ہیں۔ یہ کھڑکیاں تمام سیٹوں کو ایک طرح سے گھیرے ہوئے ہیں تا کہ تمام خلائی مسافر باہر کا مسلسل بھرپور نظارہ کرتے رہیں۔ اس خلائی سفر میں مسافروں کے مزاج کا بھی بہتر انداز میں خیال رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
آدھا جہاز، آدھا راکٹ
ورجن گیلکٹک یا اسپیس شپ ٹُو ایک خصوصی جیٹ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ یہ عمودی رخ پر سُپر سانک رفتار کے ساتھ اپنا سفر اختیار کرے گا۔ پائلٹ راکٹ چلانے کا بٹن دبائے گا تو اس کے ساتھ خلائی جہاز بھی حرکت میں آ جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ہمیشہ رہنے والا نقش
اس خاص خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں سولہ کیمرے نصب ہوں گے۔ یہ کیمرے ہر مسافر کے تمام سفر کی کیفیات کو مسلسل ریکارڈ کرتے رہیں گے۔ اس میں ایک بڑا شیشہ بھی نصب کیا گیا ہے تا کہ جب خلائی مسافر خلا میں تیرنا شروع کریں تو وہ خود کو بھی دیکھ سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ایک انتہائی مہنگا سفر
ورجن گیلکٹک کے تمام تر پرزے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک مقام موجاو میں قائم ایک فیکٹری میں جوڑ کر اسے خلائی جہاز کی شکل دیتے ہیں۔ تمام مسافروں کو سفر اختیار کرنے سے قبل خصوصی تربیت بھی دی جائے گی۔ بظاہر یہ ایک انتہائی منفرد اور بہت ہی مہنگا سفر ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Montoya Bryan
7 تصاویر1 | 7
انتخاب کا عمل ڈیڑھ سال پر محیط
نئے خلا بازوں کی بھرتی کے اس عمل کے دوران مجموعی طور پر اس ادارے کے رکن ممالک سے 26 خلا باز منتخب کیے جائیں گے۔ ان میں سے چار سے لے کر چھ تک خلا باز مستقل کیریئر خلا باز ہوں گے جبکہ باقی ماندہ 20 مختلف خلائی مشنوں کے وہ ریزرو ارکان ہوں گے، جنہیں کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پر خلا میں بھیجا جا سکے گا۔
ژان ووئرنر نے بتایا کہ درخواست دہندگان میں سے دو درجن سے زائد کامیاب امیدواروں کے انتخاب کا عمل چھ مراحل پر مشتمل ہو گا، جو 18 ماہ کے عرصے میں اکتوبر 2022ء میں مکمل ہو گا۔
اس بارے میں ای ایس اے کے انسانی وسائل اور روبوٹک ایکسپلوریشن کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پارکر نے کہا کہ منتخب کردہ 26 خلا بازوں میں سے 20 ایسے ریزور خلا باز ہوں گے، جنہیں کسی خاص مشن کے لیے اور ضرورت پڑنے پر اسی طرح خلا میں بھیجا جائے گا، جیسے کسی بھی ملک کی مسلح افواج میں ریزرو فوجیوں کی خدمات کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
تنوع کی کوشش
یورپی خلائی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ووئرنر کے مطابق اس یورپی ادارے کے لیے اس کے عملے میں پایا جانے والا تنوع کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک اثاثہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ خاص طور پر خواتین کی بھی حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ بھی درخواستیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ چناؤ کے عمل کے دوران کسی بھی امیدوار کی جنس، مذہب، نسل یا عمر بالکل غیر اہم عوامل ہوں گے۔
ای ایس اے کا قیام 1975ء میں عمل میں آیا تھا۔ اب تک اس ادارے کے پاس صرف دو ہی خاتون خلا باز رہی ہیں۔ مجموعی طور پر آج تک خلا میں جو 560 انسان گئے ہیں، ان میں سے صرف 65 خواتین تھیں۔ ان میں سے بھی 51 خواتین کا تعلق امریکا سے تھا۔
اشتہار
درخواستیں دینے کا اہل کون؟
اس بھرتی کے لیے درخواستیں دینے والے امیدواروں کے لیے لازمی ہو گا کہ ان کے پاس میڈیسن، قدرتی سائنسز، انجینیئرنگ یا کمپیوٹر سائنسز میں کم از کم ایک ماسٹرز ڈگری ہو، انہیں کم از کم تین سال کا پوسٹ گریجویٹ پیشہ وارانہ تجربہ بھی ہو اور وہ انگریزی کے علاوہ کم از کم ایک اور زبان بھی بہت اچھی طرح جانتے ہوں۔
ناسا کی ساٹھویں سالگرہ، تاریخی کامیابیوں پر ایک نظر
امریکی خلائی ادارہ ناسا اپنے قیام کی ساٹھویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ان چھ عشروں میں اس مشہور خلائی ادارے کے توسط سے دنیا نے کچھ ایسے بھی لمحات دیکھے جو یاد گار ٹھہرے۔ ڈی ڈبلیو نے ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات پر ایک نظر ڈالی ہے۔
سوویت یونین نے اپنا سپوتنک سیٹلائٹ سن 1957 میں خلا میں روانہ کیا تھا۔ یوں سوویت یونین خلائی مشن بھیجنے میں امریکا سے بازی لے گیا اور امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ خلا میں سویت یونین کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔ تب ہی امریکی فوج نے انتیس جولائی کو ایکسلپورر وَن نامی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا اور پھر اسی سال اکتوبر میں ناسا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
جب انسان چاند پر پہنچا
اپنے قیام کے صرف گیارہ سال بعد ہی ناسا پہلی بار چاند پر انسانوں کو اتارنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس تصویر میں خلا نورد نیل آرمسٹرانگ اور ایروِن ایلڈرن چاند کی سطح پر امریکی پرچم نصب کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
چودہ اپریل سن انیس سو ستر کے روز خلائی جہاز ’اپالو تیرہ‘ کا آکسیجن ٹینک پھٹ گیا تھا۔ جہاز میں موجود خلا نورد جیمز لوول کو ٹیکساس میں قائم ناسا کے مرکزی دفتر میں اس پیغام کے ساتھ رپورٹ کرنا پڑا تھا، ’’ہیوسٹن ، ہمیں مسئلہ پیش آ گیا تھا۔‘‘ خلانورد خرابی ٹھیک کرنے کے بعد بحفاظت زمین پر لوٹ آئے تھے۔
اٹھائیس جنوری سن 1986 کو خلا میں بھیجے جانے والی ’دی چیلنجر‘ سپیس شٹل اپالو تیرہ کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوئی۔ یہ خلا کی جانب روانہ ہونے کے چند منٹ بعد ہی دھماکے سے تباہ ہو گئی تھی اور اس میں موجود تمام سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ دھماکے کا سبب ’سیل بند‘ کرنے کے لیے استعمال کی گئی ربر کی مہر تھی جو غیر معمولی سرد درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر سکی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/B. Weaver
دیرینہ مسابقت ختم ہو گئی
امریکی اور روسی سائنسدانوں کے درمیان خلا میں بھی جاری سرد جنگ بالآخر چودہ دسمبر سن انیس سو اٹھانوے کو اس وقت ختم ہو گئی جب امریکا کا ’یونیٹی‘ روس کے ’زاریا‘ اسٹیشنز آپس میں ملا دیے گئے۔ انہی دونوں کو ملا کر ’بین الاقوامی خلائی اسٹیشن‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ناسا کا اگلا مشن: مریخ پر انسان
مریخ سیارہ ناسا کے تجسس کا اگلا پڑاؤ تھا۔ چھ اگست سن 2012 کو ناسا کی بھیجی گئی موبائل لیبارٹری نے مریخ پر لینڈ کیا اور یہ موبائل لیبارٹری آج بھی مریخ سے سائنسی دریافتیں، سیلفیاں، تصاویر حتی کہ ٹویٹ پیغامات بھیجنے میں مصروف ہے۔ ناسا کا اگلا منصوبہ سن 2030 تک مریخ پر انسانوں کی لینڈنگ ہے۔
اس ادارے نے اپنے ہاں خلا بازوں کی گزشتہ بھرتی 2008ء اور 2009ء میں کی تھی۔ تب درخواست دہندگان کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد رہی تھی۔ ان میں سے مجموعی طور پر چھ مراحل کے دوران پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کرنے والوں کی تعداد صرف 11 فیصد کے قریب رہی تھی۔
پہلا خلائی مشن 2025ء سے پہلے نہیں
اس ریکروٹمنٹ کے نتیجے میں جن خلا بازوں کو بھرتی کیا جائے گا، ان میں سے پہلا گروپ اپنے اولین خلائی مشن پر 2025ء یا اس سے بھی کچھ عرصے بعد خلائی سفر پر بھیجا جائے گا۔
اس ریکروٹمنٹ کے لیے درخواستیں دینے کی آخری تاریخ 28 مئی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ 26 کامیاب امیدواروں میں سے ایک آپ بھی ہو سکتے ہیں، تو آپ کو بھی درخواست دینے میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔
سیم بیکر (م م / ع س)
تین لاکھ نئی کہکشائیں دریافت
سائنسدانوں نے لاکھوں ایسی نئی کہکشائیں دریافت کر لی ہیں، جو اب تک انسانی نظر سے اوجھل تھیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس پیشرفت سے بلیک ہول اور کہکشاؤں کے جھرمٹ کے تخلیق ہونے کے بارے میں مزید معلومات مل سکیں گی۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
ٹمٹماتی ہوئی سرخ کہکشائیں
یہ تصویر HETDEX ریجن میں گردش کرتی متعدد کہکشاؤں کی نشاندھی کرتی ہے۔ اٹھارہ ممالک سے تعلق رکھنے والے دو سو سے زائد سائنسدانوں نے ان کہکشاؤں کو دریافت کیا ہے۔ ماہرین فلکیات نے ریڈیو ٹیلی اسکوپ نیٹ ورک LOFAR کے ذریعے ان کی نئی نقشہ بندی کی۔
تصویر: LOFAR/Judith Croston
چمکدار پر
ریڈیو ٹیلی اسکوپ کے ذریعے سے حاصل کردہ یہ امیج B3 0157+406 نامی خلائی ریجن کی میگنیٹک فیلڈ میں بڑے پیمانے پر ایک ہنگامی سرگرمی دکھا رہا ہے۔ ایسے لوگ جو فلکیات کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے، انہیں اس تصویر میں دو بڑے پر دکھائی دیں گے۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
پیچ دار کہکشاں
اس تصویر میں M106 نامی کہکشاں کی روشن دم دیکھی جا سکتی ہے۔ محققین کو یقین ہے کہ آتش فشانی کرتا یہ حصہ دراصل اس کہکشاں کے وسط میں واقع ایک بہت بڑے بلیک ہول کا ثبوت ہے۔ ہیمبرگ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر اجرام سماوی مارکوس بروگن کے مطابق LOFAR کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بلیک ہول کے کہکشاؤں پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Cyril Tasse
گرداب نما کہکشاں
یہ تصویر M51 نامی کہکشاں کی ہے۔ اسے سائنسدان گرداب نما کہکشاں بھی کہتے ہیں، اس کا یہ نام اس تصویر سے ظاہر بھی ہوتا ہے۔ یہ زمین سے پندرہ اور 35 ملین نوری سال دور واقع ہے۔ اس کے وسط میں بھی ایک بہت بڑا بلیک ہول واقع ہے۔
تصویر: LOFAR/Sean Mooney
سرخ آنکھ کے مانند
کہکشاؤں کے اس جتھے کو CIZA J2242.8+5301 سے جانا جاتا ہے۔ سائنسدان اس کے شمالی حصے کو ’ساسیج‘ بھی کہتے ہیں۔ ماہر اجرام فلکیات کو یقین ہے کہ اس جتھے سے ملنے والی معلومات ظاہر کر سکیں گی کہ کہکشاؤں کے جتھے کس طرح ترتیب پاتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Duy Hoang
خلا میں دھماکے
اس تصویر میں IC 342 نامی پیچ دار کہکشاں میں ہونے والے سپر نووا دھماکوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ منظر دیکھنے میں شاندار معلوم ہوتا ہے۔ فرانسیسی سائنسدان سیرل تاشے دریافت ہونے والی اس نئی کہکشاں کو کائنات کا ایک نیا درز قرار دیتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
جھلملاتے ستارے
ٹیلی اسکوپ LOFAR سے حاصل کردہ یہ امیج رات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کبھی کبھار سائنسدانوں کو اس طرح کے دیدہ زیب منظر کو عکس بند کرنے میں بہت زیادہ مہارت دکھانا پرٹی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسدانوں کی یہ کوشش ناکام نہیں ہوئی۔
تصویر: LOFAR/Cyril Tasse
ط
کہکشاؤں کا جتھہ Abell 1314 زمین سے چار سو ساٹھ ملین نوری سال دور واقع ہے۔ LOFAR کے ماہرین کو اس جتھے کی اور نئی دریافت کی جانے والی تین لاکھ کہکشاؤں کی جامع اور مکمل تحقیق کی خاطر بڑے پیمانے پر ڈیٹا اسٹور کرنا ہو گا۔ بیلے فیلڈ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر فلکیات ڈومینیک شوارٹس کا کہنا ہے کہ اس مقصد کی خاطر دس ملین ڈی وی ڈیز پر اسٹور کیے جانے والے مواد کا تجزیہ کرنا ہو گا۔