یورپی درجہ حرارت میں عالمی اوسط سے دگنا اضافہ، اقوم متحدہ
3 نومبر 2022
براعظم یورپ میں گزشتہ 30 برسوں کے دوران موسمی درجہ حرارت میں باقی دنیا کے مقابلے میں دُگنی شرح سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی لائی ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق یورپ میں گرمی کا درجہ حرارت عالمی اوسط سے دو گنا بڑھ گیا ہے۔ یہ رپورٹ بدھ کے روز اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) اور یورپی یونین کے زمینی مشاہدے سے متعلق پروگرام کاپرنکس کلائمیٹ چینج سروس نے مشترکہ طور پر جاری کی ۔ ڈبلیو ایم او نے ایک بیان میں کہا، ''یورپ میں 1991-2021ء کے دوران درجہ حرارت میں نمایاں طور پر اوسطاً پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔‘‘
درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجےمیں 1997ء سے 2021ء کے درمیان یورپ کے مشہور الپائن گلیشیرز پر برف کی تہہ کی موٹائی میں 30 میٹر کمی آ چکی ہے۔ اس دوران گرین لینڈ میں برف کی چادر بھی پگھلتی ہوئی پائی گئی اور یہ سمندری پانی کی سطح میں تیزی سے اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
ڈبلیو ایم او کے سربراہ پیٹری تالاس نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''یورپ ایک گرم ہوتی ہوئی دنیا کی زندہ تصویر پیش کرتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اچھی طرح سے تیار معاشرے بھی شدید موسمی واقعات کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔‘‘
ڈبلیو ایم او کے مطابق 2021 ءکے موسم گرما کے دوران گرین لینڈ کے بلند ترین مقام پر پہلی بار ریکارڈ بارش دیکھی گئی۔ موسم سے جڑے حادثات کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں، جنہوں نے براہ راست نصف ملین سے زائد افراد کو متاثر کیا اور 50 بلین ڈالر سے زائد کا مالی نقصان پہنچایا، ان واقعات میں سے تقریباً 84 فیصد سیلاب یا طوفان تھے۔
یورپ میں انتہائی مہلک اور شدت والا موسم گرمی کی وہ لہریں تھیں، جنھوں نے خاص طور پر مغربی اور جنوبی یورپ کو نشانہ بنایا۔
اشتہار
مہلک گیسوں کے اخراج میں 31 فیصد کمی
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں تمام اطلاعات بُری ہی نہیں ، کیونکہ اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپ کے متعدد ممالک نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کامیابی کے ساتھ کمی کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں 1990ء سے 2020 ء کے درمیان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 31 فیصد کمی واقع ہوئی۔
2015ء میں فرانس کے دارلحکومت پیرس میں ہونے والےبین الاقوامی موسمیاتی معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئےڈبلیو ایم او کے سربراہ کا کہنا تھا، ''خطے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے تخفیف کی طرف اچھی رفتارجاری رکھنا چاہیے اور اس حوالے سے عزم کو مزید مظبوط کیا جانا چاہیے۔ پیرس معاہدے کو پورا کرنے کے لیے یورپ رواں صدی کے وسط تک ایک کاربن غیر جانبدار معاشرے کے حصول میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘
اس موسمیاتی رپورٹ کی تیاری میں مختلف ممالک کی قومی موسمیاتی اور ہائیڈروولوجیکل سروسز، موسمیاتی ماہرین، علاقائی اداروں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی شراکت دار ایجنسیوں کی کاوشیں شامل تھیں۔ یہ رپورٹ مصر کے شہر شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے سالانہ سربراہی اجلاسCOP27 سے پہلے پیش کی گئی ہے۔
ش ر/ش ح ( روئٹرز، اے ایف پی)
شدید خونریز موسم، کرہ ارض کے لیے دھچکا
براعظم یورپ سے لے کر امریکا اور ایشیا و افریقہ کے کئی ممالک میں شدید موسموں کی وجہ سے قدرتی آفات خبروں کی سرخیوں میں ہیں۔ کیا یہ سب ماحولیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہیں۔
تصویر: Noah Berger/AP Photo/picture alliance
یورپ میں شدید سیلاب
یورپ کی جدید تاریخ میں غیرمعمولی سیلاب کی وجہ دو ماہ سے ہونے والا شدید سیلابی سلسلہ بنا۔ یوں بالخصوص مغربی یورپ میں شدید تباہی ہوئی اور صرف جرمنی اور بیلجیم میں کم از کم دو سو نو افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی پر لاکھوں یورو خرچ ہوں گے۔
تصویر: Thomas Lohnes/Getty Images
بارش کا غیر معمولی سلسلہ
حالیہ ہفتوں میں بھارت اور چین میں بھی غیر معمولی سیلاب آئے۔ چین کے صوبہ ہینان کے شہر ژانگژو میں سیلابی ریلے انڈر گراؤنڈ ٹرین سب وے میں داخل ہو گئے، جہاں درجنوں مارے بھی گئے۔ موسمیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کلائمیٹ چینج کی وجہ سے مستقبل میں زیادہ شدید بارشوں کا خدشہ ہے۔ زیادہ گرم موسم پانی کی بڑی مقدار کو بخارات بنائے گا، جو بادل بن کر برسیں گے۔
تصویر: AFP/Getty Images
امریکا اور کینیڈا میں ریکارڈ گرمی
جون کے اواخر میں کینیڈا اور امریکا میں بھی شدید گرمی پڑی۔ بالخصوص کینیڈین صوبے برٹش کولمبیا میں ریکارڈ گرم درجہ حرارت بھی نوٹ کیا گیا جبکہ گرم موسم کی وجہ سے کئی اموات بھی ہوئیں۔ اسی باعث دونوں ممالک میں جنگلاتی آگ بھی بھڑکی، جو بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا باعث بنی۔
تصویر: Ted S. Warren/AP/picture alliance
جنگلاتی آگ سے تباہی
گرمی کی لہر شاید ختم ہونے والی ہے لیکن انتہائی خشک موسم سے جنگلاتی آگ بھڑکنے کا خطرہ نہیں ٹلا۔ امریکی ریاست اوریگن میں بھڑکی جنگلاتی آگ کی وجہ سے دو ہفتوں میں ہی ایک بڑا رقبہ راکھ ہو گیا۔ یہ آگ اتنی شدید ہے کہ اس کا دھواں نیو یارک شہر تک پہنچ رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق موسموں میں یہ شدت انسانوں کی طرف سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔
تصویر: National Wildfire Coordinating Group/Inciweb/ZUMA Wire/picture alliance
ایمیزون میں بگڑتی صورتحال
برازیل کا وسطی اور جنوبی حصہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ گزشتہ سو برس بعد ان علاقوں میں یہ صورتحال دیکھی جا رہی ہے۔ یوں جنگلاتی آگ بھڑکنے کے علاوہ ایمیزون کے جنگلات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Andre Penner/AP Photo/picture alliance
فاقہ کشی کے دہانے پر
مڈغاسکر میں گزشتہ کئی برسوں کی خشک سالی کے باعث 1.14 ملین نفوس فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس افریقی ملک میں نا تو کوئی قدرتی آفت آئی اور نا ہی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ یہاں تو کوئی سیاسی تنازعہ بھی پیدا نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود وہاں قحط سالی کا خطرہ ہے، جس کی وجہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Laetitia Bezain/AP photo/picture alliance
قدرتی آفات سے مہاجرت
گزشتہ برس قدرتی آفات اور مسلح تنازعوں سے اپنے ہی ملکوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد پچپن ملین رہی، جو گزشتہ دہائی کا ایک نیا ریکارڈ بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ چھیبس ملین افراد غیر ممالک مہاجرت پر بھی مجبور ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اپنے ہی ممالک میں بے گھر ہونے والے افراد کی تین چوتھائی شدید موسموں کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔