یورپی رہنماؤں کے درمیان مہاجرین کے موضوع پر اختلافات
عاطف توقیر
15 دسمبر 2017
یورپی سربراہی کانفرنس میں یونین کی رکن ریاستوں کے رہنماؤں کے درمیان مہاجرین کے موضوع پر اختلاف رائے میں کوئی کمی نہیں ہو سکی ہے۔ اس موضوع پر مشرقی اور مغربی یورپی ریاستوں کے درمیان اختلافات واضح ہیں۔
اشتہار
یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں اس بار اہم موضوع اگلے برس جون کی ڈیڈلائن سے قبل سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی بابت اصلاحات کا تھا، تاہم اس موضوع پر مختلف رکن ریاستوں کی آرا مختلف ہے۔
جمعے کی صبح یورپی رہنماؤں کے درمیان جاری دو گھنٹوں پر محیط بات چیت میں مشرقی یورپی ریاستوں کی جانب سے تارکین وطن کی تقسیم سے متعلق یورپی کمیشن کے منصوبے کی شدید مخالفت کی۔ یورپی کمیشن نے سن 2015ء میں ایک منصوبہ پیش کیا تھا، جس کے تحت یونین کی رکن ریاستوں پر لازم کیا گیا تھا کہ وہ اٹلی اور یونان میں موجود تارکین وطن کو اپنے اپنے ہاں بسائیں، تاہم ہنگری، چیک جمہوریہ، سلواکیا اور پولینڈ تارکین وطن کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
دوسری جانب یورپی رہنماؤں نے یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے تحفظ کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے اور اس سلسلے میں مشترکہ حکمت عملی کے تحت ترکی اور لیبیا جیسے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے برسلز میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’’یورپی یک جہتی فقط بیرونی سرحدوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے داخلی طور پر بھی دکھائی دینا چاہیے۔‘‘
یورپی یونین کی سرحدوں کی بہتر نگرانی کا نیا منصوبہ
03:17
انہوں نے مزید کہا، ’’اس موضوع پر ہمیں بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نکتہ ہائے نگاہ تبدیل نہیں ہوا مگر ہمارے سامنے ایک واضح راستہ ہے کہ اگلے برس جون تک ہم اس موضوع پر تن دہی سے کام کریں۔‘‘
اس سے قبل یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹُسک نے اپنے ایک خط میں کہا تھا کہ یورپی کمیشن کا مہاجرین کی تقسیم سے متعلق منصوبہ ’تقسیم کا باعث‘ اور ’غیرفعال‘ ہے۔ ہنگری، چیک جمہوریہ، سلواکیہ اور پولینڈ نے ڈونلڈ ٹُسک کے موقف کی تائید کی تھی، تاہم جرمنی اور دیگر ممالک کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی تقسیم سے متعلق کوٹا یورپی یک جہتی کو ظاہر کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔