یورپی رہنما افریقی مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی کے خواہاں
عاطف توقیر
20 اکتوبر 2017
یورپی رہنما افریقہ سے یورپی ممالک کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی کے خواہاں ہیں۔ جمعرات کے روز یورپی رہنماؤں نے اس سلسلے میں لیبیا میں اٹلی کی سرگرمیوں کو تقویت دینے پر اتفاق کیا۔
اشتہار
جمعرات کے روز یورپی یونین کے رہنماؤں کے اجلاس میں بحیرہء روم کے راستے اٹلی کا رخ کرنے والے افریقی مہاجرین کی تعداد میں کمی کے لیے اطالوی حکومت کی کارروائیوں میں ’زیادہ بھرپور مدد‘ پر اتفاق کیا گیا۔
28 رکنی یورپی یونین کے رہنماؤں نے برسلز میں اپنے اجلاس کے بعد اتفاق کیا کہ لیبیا سے وسطیٰ بحیرہء روم کے راستے یورپی یونین پہنچنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے زیادہ موثر کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے زور دیا کہ یورپی یونین کے پاس یہ راستہ روکنے کا نادر موقع ہے۔
یورپی کمیشن کی جانب سے رہنماؤں کو بتایا گیا کہ مہاجرت سے متعلق جاری منصوبوں کے لیے اسے 225 ملین یورو کی فوری مدد درکار ہے، تاکہ وہ افریقہ میں اپنے پروجیکٹس کو وسعت دے اور تارکین وطن کو افریقہ سے یورپ منتقل ہونے سے روکے۔
یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود ینکر نے اس موقع پر کہا، ’’اگر ہم افریقہ اور خصوصاﹰ شمالی افریقہ میں اپنی موجودگی چاہتے ہیں، تو ہمیں اس سلسلے میں مالی وسائل میں اضافے کی ضرورت ہے۔‘‘
برسلز نے اب تک افریقہ ٹرسٹ فنڈ کی مد میں دو اعشاریہ نو ارب یورو مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے جب کہ مزید 234 ملین یورو رکن ریاستوں سے حاصل کیے جائیں گے۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
10 تصاویر1 | 10
یورپی کمیشن کے مطابق اس حوالے سے ایک اعشاریہ چھ ارب یورو رواں برس کے اختتام تک ترکی میں خرچ کیے جائیں گے۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین گزشتہ برس مارچ میں طے ہونے والے معاہدے کے مطابق مہاجرین کو بحیرہ
ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے سے روکنے کے لیے ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے تین ارب یورو مہیا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ترکی کے ساتھ انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجود جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے شامی مہاجرین کی میزبانی پر ترکی کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کو مزید تین ارب یورو ترکی میں موجود شامی مہاجرین پر خرچ کرنا چاہیيں۔
میرکل نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’’ہم نے ترکی کے ساتھ معاہدے کے تحت تین ارب یورو کے وعدے کے علاوہ مزید تین ارب یورو اگلے برسوں میں ترکی میں موجود مہاجرین پر خرچ کرنے پر اتفاق کیا ہے اور ہمیں اپنے وعدوں کا پاس کرنا چاہیے۔‘‘