اٹھارہویں صدی میں سفید فام نسل پرستی کے نظریات اپنے عروج پر پہنچ گئے تھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے یورپی تہذیب نے ترقی کر لی تھی۔ یورپی ملکوں کی تجارتی کمپنیاں ایشیا اور یورپ میں اپنی پیداوار کو منڈیوں میں بھیج کر سرمایہ جمع کر رہے تھے۔ آپس میں مختلف جنگوں کے بعد انھوں نے مہلک ہتھیار بھی تیار کرلیے تھے۔ ان کے سیاستدان اور دانشورسفید فام نسل کی برتری کے قائل تھے۔ اس لیے جب یہ رنگ کی بنیاد پر دوسری قوموں سے اپنا موازنہ کرتے تھے تو انھیں غیر مہذب اور کمتر سمجھتے تھے۔ نسل پرستی کے ان خیالات کا اظہار Arthur de Gobineauنے اپنی کتابThe Inequality of Human Races میں کیا۔ لہٰذایورپی اقوام خود کو مہذب اور ترقی یافتہ سمجھتے ہوئے ایشیاء اور افریقہ کی اقوام پر حکومت کرنا جائز سمجھتے تھے۔
اس لئے انہوں نے تہذیب کو سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ لندن کی آبادی میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے بے روزگار اور فقیر لندن کی سڑکوں پر جمع ہو کر بھیک مانگتے تھے اور امراء کی گاڑیوں کو گھیر لیتے تھے۔ اس لیے امراء کے اصرار پر ان لوگوں کی وجہ سے شہر میں صفائی نہیں رہی تھی اور گندگی کے ڈھیر ہر طرف نظر آتے تھے جس کی وجہ سے اُن کے کے لیے شہروں میں آنا دشوار ہو گیا تھا۔ اس پر انگلستان کی حکومت نے پہلا کام یہ کیا کہ ان بے روزگار غریبوں کو زبردستی جہازوں میں بھر کر امریکہ بھیج دیا۔ اس کی تفصیل نینسی برگر نے اپنی کتاب The 400-Year Untold History of Class in America White Trash: میں دی ہے۔
دوسرا کام انھوں نے یہ کیا کہ معمولی جرائم کی سزا میں لوگوں کو آسٹریلیا جلاوطن کر دیا۔ جہاں اُن سے محنت و مشقت کرائی۔ لیکن ابھی بھی غریب اور بے روزگار لوگوں کی کافی تعداد موجود تھی۔ ایک دن جب Cecil Rhodes (d.1902) ہجوم کو دیکھا تو اس نے یہ عہد کیا کہ وہ ان لوگوں کے لیے زمینیں لے کر انہیں افریقہ میں آباد کرےگا تاکہ وہ خوشگوار زندگی گزار سکیں۔ اس مقصد کے لیے اس نے رہوڈیشیا کاشہر آباد کیا اور افریقی باشندوں کی زمینوں پر سفید فام باشندوں کو وہاں آباد کیا۔
آزادی کے بعد رہوڈیشیا کا نیا نام زمبابوے ہوا۔ اور نئی حکومت نے کوشش کی کہ سفید فام لوگوں سے زمینیں واپس لے کر مقامی افریقیوں کو دی جائیں۔ انگلستان کے اکثر دانشوروں اور سیاستدانوں کا یہ خیال تھا کہ اگر زائد آبادی کو کالونیز میں منتقل نہیں کیا گیا تو اس کے نتیجے میں یہاں خانہ جنگیں شروع ہو جائے گی۔ زائد آبادی کو منتقل کرنے کا سب سے عمدہ خطہ افریقہ تھا۔ اس کے بارے میں یورپی دانشوروں اور سیاستدانوں کا خیال تھا کہ یہ تاریک براعظم ہے۔ اس کی نہ تو کوئی تاریخ ہے اور نہ تہذیب۔ اس لیے یہ لوگ انسانیت کے درجے سے گرے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کا وجود زمین پر ایک بوجھ ہے۔ کچھ دانشوروں نے یہ تجویز پیش کی کہ ان کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے۔ اور یہ کام جتنی جلدی ہو سکے کیا جائے۔ مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ختم کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جائے۔ اس لیے یورپی سامراجی ملکوں نے افریقی قبائل کا قتل عام کر کے وہاں سفید فام آباد کاروں کو منتقل کیا۔
Patrick Brantlingerنے اپنی کتاب Rule of Darkness میں اس کی تفصیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی آزادی کے بعد اور غلامی کے خاتمے کے بعد برطانوی سامراج کو نئی کالونی کی ضرورت تھی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نسل پرستی کے نظریات نے اہم کردار ادا کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی افسر کے مطابق جہاں جہاں برطانیہ کی کالونیاں ہیں وہاں مقامی باشندوں کی حفاظت کرنا ضروری نہیں بلکہ انھیں قتل کر کے اُن کے نسل کا صفایا کرنا چاہیے۔
ایک برطانوی دانشور Knoxنے دلیل دی کہ سفید فام اقوام ذہین اور برتر جبکہ افریقی ابتداء ہی سے نااہل اور غلام رہے ہیں۔ لہٰذا ان کو مہذب بنانے کا عمل بے کار ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ ان کو چُن چُن کر قتل کر دیاجائے کیونکہ یہ فطرت کا اصول ہے John Stuart Mill نے اپنی کتاب Liberty میں یہ دلیل دی ہے کہ ہندوستانیوں اور کمتر اقوام کے لیے آزادی نہیں ہونی چاہیے۔ John Stuart Mill جس نے ہسٹری آف برٹش انڈیا لکھی ہے، اس کے نظریے کے مطابق کمتر اقوام کے لیے جمہوریت اور آزادی کی ضرورت نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے برطانوی دانشوروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی زائد آبادی کو کالونیوں میں بسا دینا چاہیے۔ کیونکہ جو قومیں اپنے فطری ذرائع کو استعمال کرنے کی اہل نہیں ہیں، انہیں یہ حق سفید فام آباد کاروں کو دینا چاہیے کہ وہ زراعت اور صنعت میں ترقی کریں اور فطری ذرائع کا استعمال کرکے سرمائے میں اضافہ کریں۔ اس صورت میں مقامی لوگوں کا کام ان کی نگرانی میں محنت اور مشقت ہونا چاہیے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔