یورپی یونین کی سربراہی کانفرنس سے قبل رکن ریاستوں کے مابین مہاجرین کی تقسیم سے متعلق یورپی کمیشن کے منصوبے پر اختلافات شدید تر ہیں اور یہ موضوع اس کانفرنس میں بھی مرکزی نوعیت کا ہو گا۔
اشتہار
یورپی یونین کا سربراہی اجلاس جاری ہے، تاہم اس اجلاس کے آغاز سے قبل مختلف رکن ریاستوں میں مہاجرین کے بحران کے حل اور خصوصاﹰ یورپی کمیشن کی جانب سے یونان اور اٹلی جیسی رکن ریاستوں میں موجود تارکین وطن کو مختلف ریاستوں میں تقسیم کرنے سے متعلق منصوبے پر شدید اختلافات مزید شدت اختیار کر چکے ہیں۔
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک نے اس اجلاس سے قبل اپنے ایک خط میں یورپی کمیشن کے اس منصوبے کو ’غیرفعال‘ اور ’تقسیم کا باعث‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ رکن ریاستیں یورپی سرحدوں کو محفوظ بنانے پر زیادہ توجہ دیں۔
سن 2015ء میں متعارف کروائی گئی اسکیم کے مطابق یونان اور اٹلی پہنچنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں ایک لازمی کوٹا نظام کے تحت تقسیم کیا جانا تھا، تاہم ہنگری، پولینڈ اور چیک جمہوریہ اپنے ہاں کسی بھی تارک وطن کو پناہ دینے کے امکان کو رد کر چکے ہیں۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
یورپی کمیشن نے مہاجرین تقسیم کر کے مستقبل میں کسی بحرانی صورت حال سے نمٹنے کا ایک مستقل منصوبہ طے کیا تھا، تاہم متعدد رکن ریاستوں کی جانب سے اس منصوبے پر شدید اعتراضات کی وجہ سے اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوا ہے۔
یورپی مائیگریشن کمشنر دیمیتریس اوراموپولوس یورپی کونسل کے سربراہ ڈونڈ ٹُسک کے اس خط پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ’ناقابل قبول‘ اور ’یورپ مخالف‘ قرار دیا۔
یورپی کمشین کے ترجمان مارگاریتِس شیناس کے مطابق اس بابت کوئی داخلی تنازعہ نہیں ہے، تاہم انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ یورپی کمشین اس بیان کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اس کا تجویز کردہ مہاجرین کی تقیسم کا منصوبہ ’غیرفعال‘ ہے۔
ترک - یورپی یونین کشیدگی، مہاجرین کی ڈیل کا کیا ہو گا؟
04:07
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت اب تک 32 ہزار تارکین وطن کو مختلف رکن ریاستوں میں بسایا جا چکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کو مختلف یورپی ریاستوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔
جرمنی اور سویڈن اس منصوبے کے مضبوط حامی ہیں اور ان ممالک کا موقف ہے کہ مہاجرین کا بوجھ بانٹ کر یورپی یونین کی رکن ریاستوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔