1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی سربراہی کانفرنس، مہاجرین کی تقسیم بڑا موضوع

عاطف توقیر
14 دسمبر 2017

یورپی یونین کی سربراہی کانفرنس سے قبل رکن ریاستوں کے مابین مہاجرین کی تقسیم سے متعلق یورپی کمیشن کے منصوبے پر اختلافات شدید تر ہیں اور یہ موضوع اس کانفرنس میں بھی مرکزی نوعیت کا ہو گا۔

EU Militäroperation Sophia im Mittelmeer Boote der italienischen Marine
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Lami

یورپی یونین کا سربراہی اجلاس جاری ہے، تاہم اس اجلاس کے آغاز سے قبل مختلف رکن ریاستوں میں مہاجرین کے بحران کے حل اور خصوصاﹰ یورپی کمیشن کی جانب سے یونان اور اٹلی جیسی رکن ریاستوں میں موجود تارکین وطن کو مختلف ریاستوں میں تقسیم کرنے سے متعلق منصوبے پر شدید اختلافات مزید شدت اختیار کر چکے ہیں۔

یورپی یونین مہاجرین کی تقسیم کے معاملے پر تا حال منقسم

’مہاجرین کے حقوق کی پامالیوں کی ذمہ دار یورپی یونین بھی‘

سربیا میں پھنسے مہاجر اور شدید جاڑے کے دن

یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک نے اس اجلاس سے قبل اپنے ایک خط میں یورپی کمیشن کے اس منصوبے کو ’غیرفعال‘ اور ’تقسیم کا باعث‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ رکن ریاستیں یورپی سرحدوں کو محفوظ بنانے پر زیادہ توجہ دیں۔

سن 2015ء میں متعارف کروائی گئی اسکیم کے مطابق یونان اور اٹلی پہنچنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں ایک لازمی کوٹا نظام کے تحت تقسیم کیا جانا تھا، تاہم ہنگری، پولینڈ اور چیک جمہوریہ اپنے ہاں کسی بھی تارک وطن کو پناہ دینے کے امکان کو رد کر چکے ہیں۔

یورپی کمیشن نے مہاجرین تقسیم کر کے مستقبل میں کسی بحرانی صورت حال سے نمٹنے کا ایک مستقل منصوبہ طے کیا تھا، تاہم متعدد رکن ریاستوں کی جانب سے اس منصوبے پر شدید اعتراضات کی وجہ سے اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوا ہے۔

یورپی مائیگریشن کمشنر دیمیتریس اوراموپولوس یورپی کونسل کے سربراہ ڈونڈ ٹُسک کے اس خط پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ’ناقابل قبول‘ اور ’یورپ مخالف‘ قرار دیا۔

یورپی کمشین کے ترجمان مارگاریتِس شیناس کے مطابق اس بابت کوئی داخلی تنازعہ نہیں ہے، تاہم انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ یورپی کمشین اس بیان کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اس کا تجویز کردہ مہاجرین کی تقیسم کا منصوبہ ’غیرفعال‘ ہے۔

ترک - یورپی یونین کشیدگی، مہاجرین کی ڈیل کا کیا ہو گا؟

04:07

This browser does not support the video element.

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت اب تک 32 ہزار تارکین وطن کو مختلف رکن ریاستوں میں بسایا جا چکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کو مختلف یورپی ریاستوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔

جرمنی اور سویڈن اس منصوبے کے مضبوط حامی ہیں اور ان ممالک کا موقف ہے کہ مہاجرین کا بوجھ بانٹ کر یورپی یونین کی رکن ریاستوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں