یورپی سربراہ اجلاس، ’طویل تگ و دو کے بعد معاہدے پر اتفاق‘
29 جون 2018
یورپی یونین میں سر اٹھاتے ہوئے بحران کا بظاہر حل تلاش کر لیا گیا ہے یعنی مہاجرین کے موضوع پر یورپی یونین کے مابین معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اب یورپ میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو مزید سخت عمل سے گزرنا پڑے گا۔
اشتہار
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک نے آج جمعہ 29 جون کو علی الصبح یورپی یونین کی سطح پر مہاجرین و پناہ گزینوں کے حوالے سے اس اتفاق رائے کی خبر ٹویٹر کے ذریعے دی۔ ٹُسک کے مطابق دیگر معاملات کے علاوہ یونین کے اٹھائیس ارکان نے یورپی یونین سے باہر مہاجرین کے مراکز قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ان مراکز میں پناہ گزینوں و مہاجرین کے درخواستوں کا ان کی اپنی ہی سرزمین پر جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان مراکز میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کا جائزہ بھی لیا جائے گا کہ درخواست گزار کو سیاسی پناہ ملنے کے کیا امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ شمالی افریقی اور مشرق وسطی کے ممالک کو یورپی یونین کی جانب سے ان مراکز کے قیام کے مالی امداد بھی دی جائے گی۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس طویل مذاکراتی عمل اور اس دوران کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کے بارے میں کہا، ’’طے پانے والے مختلف نکات کو عملی شکل دینے کے لیے ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘
اس اجلاس میں شدید بحث و مباحثے کے بعد اختتامی اعلامیے کے تیسرے مسودے پر اتفاق ہوا۔ یہ مذاکرات برسلز میں تقریباً بارہ گھنٹےجاری رہے۔
ساتھ ہی یورپی رہنماؤں نے ترکی کو تین ارب یورو کی دوسری قسط بھی جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس رقم کا تعلق ترکی کے ساتھ مہاجرین کے حوالے سے2016ء میں طے پانے والے ایک معاہدے سے ہے، جس کے تحت ترکی نے مہاجرین کو یورپ سے دور رکھنے کی حامی بھری تھی۔
آسٹریا کے چانسلر سیباستیان کرس نے کہا، ’’ہم ایک طویل عرصے سے یورپ سے باہر محفوظ مراکز، مہاجرین کیمپ یا حراستی مراکز، آپ اسے جو بھی نام دیں، کے قیام کی بات کر رہے تھے اور اب اس تجویز پر عمل ہو رہا ہے۔‘‘
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton
12 تصاویر1 | 12
اس سربراہی اجلاس کی کامیابی ایک طرح سے جرمن چانسلر انیگلا میرکل کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ مہاجرین کے موضوع پر کسی مشترکہ یورپی حل کے بغیر ان کی حکومت کو خطرہ تھا۔ میرکل کی ہم خیال جماعت سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر اور چانسلر کے مابین اسی موضوع پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
زیہوفر چاہتے ہیں کہ کسی دوسرے یورپی ملک میں اندراج شدہ مہاجرین و پناہ گزینوں کو جرمن سرحد سے واپس بھیج دیا جائے جبکہ میرکل اس کی مخالف ہیں۔