یورپی سرحدوں پر نگرانی سخت ہونے اور غیرقانونی طور پر یورپی یونین میں داخلے میں مشکلات کی وجہ سے الجزائر کو پریشانی کا سامنا ہے۔ یورپ پہنچنے کے خواہش مند ہزاروں غیرقانونی تارکین وطن الجزائر کا رخ کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images
اشتہار
الجزائر کو خدشات ہیں کہ بحیرہء روم میں لیبیا سے اٹلی کے درمیانی راستے پر سخت جانچ پڑتال اور نگرانی کی وجہ سے زیریں صحارا افریقہ کے خطے سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن الجزائرکا رخ کر سکتے ہیں۔ الجزائر کے وزیرداخلہ نے جمعرات کے روز کہا کہ یورپ کی سخت سرحدی پالیسی کی وجہ سے الجزائر کو تارکین وطن کے بوجھ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘
2016ء میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والی ڈیل کی وجہ سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان پہنچنا مشکل بنا دیا گیا تھا، جب کہ بلقان خطے نے بھی غیرقانونی تارکین وطن کے لیے اپنی اپنی قومی سرحدیں بند کر رکھی ہیں۔ یورپ اور انقرہ کے درمیان ڈیل سے قبل اس راستے سے ایک ملین سے زائد افراد یورپی یونین پہنچے تھے۔
اس کے بعد تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد نے شمالی افریقہ خصوصاﹰ لیبیا سے اٹلی کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ تاہم اٹلی اور لیبیا کے درمیان بھی اب اس معاملے پر قریبی تعاون اور کوسٹ گارڈز کی امداد اور تربیت کے تناظر میں بحیرہ روم کے اس وسطی علاقے کا راستہ بھی مہاجرین کے لیے نہایت مشکل بن چکا ہے۔ اسی طرح یورپی یونین نے تیونس کے ساتھ بھی اس معاملے پر اپنے تعاون میں اضافہ کیا ہے۔
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
تصویر: A.T. Schaefer
8 تصاویر1 | 8
الجزائر کے وزیرداخلہ، حسن کاچمی کے مطابق، ’’ہمارے ہاں اب ہزاروں تارکین وطن موجود ہیں اور ہمیں خدشات ہیں کہ یورپ کی جانب سے دروازے بند کر دیے جانے کے بعد مزید لاکھوں افراد الجزائر کا رخ کریں گے۔‘‘ انہوں کا مزید کہنا تھا، ’’مسئلے کا حل یہ نہیں کہ آپ اپنے اپنے ملک کے دروازے بند کر لیں اور کسی دوسری جگہ پر لوگوں کو مرنے دیں۔
الجزائر کو اپنے ہاں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد پر شدید تشویش ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ مالی اور نائجر کے ساتھ ملنے والی قریب ڈھائی ہزار کلومیٹر کی سرحد پر مہاجرین کے سیلاب کو روکنے کے لیے الجزائر بیس ملین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔