یورپی سمٹ، پوری رات گفتگو کے بعد آج بھی جاری رہے گی
20 جولائی 2020
یورپی یونین کا سربراہی اجلاس غیرمعمولی طور پر چوتھے روز بھی جاری رہے گا۔ یورپی رہنماؤں کے درمیان رات بھر گفتگو جاری رہے اور آج بھی یہ رہنما باہمی اختلاف رائے ختم کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
اشتہار
یورپی یونین کا سربراہی اجلاس دو روز پر محیط تھا، لیکن کورونا ریکوری فنڈ اور یورپی بجٹ پر موجود اختلافات کی وجہ سے اس میں ایک روز کے لیے توسیع کر دی گئی تھی۔ اس تناظر میں گزشتہ تمام رات یورپی رہنما بات چیت میں مصروف رہے لیکن اتفاقِ رائے ہھر بھی نہ ہو سکا اور اسی تناظر میں یہ رہنما اس کانفرنس کے دورانیے میں مزید ایک روز کی توسیع کرتے ہوئے آج پھر اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔
رات بھر گفتگو کے بعد اس وقت اس سربراہی اجلاس کو ایک وقفہ دیا گیا ہے اور وسطی یورپی وقت کے مطابق سہ پہر چار بجے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گا۔ اس اجلاس میں دو اہم موضوعات یورپی رہنماؤں کے پیش نظر ہیں۔ ایک تو کورونا ریکوری فنڈ ہے، جس کے تحت ساڑھے سات سو ارب یورو کے سرمائے سے کورونا وائرس کی وجہ سے بحران زدہ یورپی معیشتوں کو سہارا دیا جائے گا جب کہ دوسرا ایک اعشاریہ آٹھ پانچ ٹریلین یورو کا طویل المدتی یورپی بجٹ ہے۔
اس کانفرنس کو ہفتے کے روز ختم ہونا تھا تاہم ہالینڈ کی قیادت میں چند یورپی ممالک نے کورونا ریکوری فنڈ کے ذریعے کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے شدید مشکلات کے شکار ممالک اسپین اور اٹلی کے لیے امدادی سرمائے کی فراہمی کے ضوابط پر اعتراضات اٹھا رکھے ہیں۔ 27 رکنی یورپی یونین کی خواہش ہے کہ کسی طرح ان اختلافات کو ختم کر کے ضوابط طے کیے جائیں اور کساد بازاری کی شکار یورپی معیشت کو سہارا دیا جائے۔
ڈچ وزیر اعظم مارک رُٹے نے پانچ امیر شمالی یورپی ممالک کے گروپ کے قیام اور کورونا ریکوری فنڈ کے ضوابط پر اعتراضات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اخراجات کو محدود بنانا اور سخت مالیاتی اصلاحات کی ضمانت دینا اس سرمائے کی فراہمی سے مشروط ہونا چاہیے۔
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zuchowicz
9 تصاویر1 | 9
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان اور ڈچ وزیر اعظم مارک رُٹے کے درمیان ایک دوسرے کے حوالے سے بیان بازی بھی دیکھی گئی اور ایک موقع پر لگ رہا تھا کہ یہ سربراہی اجلاس ناکام ہو جائے گا، تاہم پیر کی صبح تک معاملات کسی حد تک بہتر ہو گئے۔
اتوار کی شب یورپی یونین کی کونسل کے صدر شارل مِشیل نے یورپی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اختلافات کو کم کریں اور بجٹ اور ریکوری فنڈ پر اتفاق رائے کی کوشش کریں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا کہ مشیل نے یورپی رہنماؤں سے کہا ، ''کیا 27 رکنی یورپی یونین کے رہنما یورپی اتحاد اور اعتماد کی تعمیر کی صلاحیت کے حامل ہیں؟ کیا ہم ایک کم زور اور منقسم یورپ کی عکاسی کر رہے ہیں، جو بداعتمادی کے نیچے دبا ہوا ہے؟‘‘