یورپی سمٹ: کورونا ریسکیو ڈیل اور میرکل کی نا اُمیدی
17 جولائی 2020
جرمن چانسلر نے یورپی یونین سمٹ میں کورونا ریسکیو ڈیل کے طے پانے پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے سمٹ سے قبل اس نا اُمیدی کا اظہار کیا۔
اشتہار
چانسلر انگیلا میرکل نے یورپی یونین کے رکن ملکوں کی جمعہ سترہ جولائی سے شروع ہونے والی دو روزہ سمٹ سے قبل اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سمٹ میں اربوں یورو کے ریکوری پلان پر شدید اور مشکل گفتگو ہونے کا امکان ہے۔ یہ اقتصادی بحالی منصوبہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد متاثر ہونے والی رکن ریاستوں کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔
سربراہ اجلاس سے قبل ریکوری پلان کے حوالے سے انگیلا میرکل کا کہنا تھا، '' ہم پوری قوت اور ہمت کے ساتھ مشاورت میں شریک ہوں گے لیکن یہ ضرور واضح کرنا ہے کہ مجوزہ پلان پر اختلافات بھی پائے جاتے ہیں، ان اختلافات کا حجم بہت وسیع ہے اور ایسا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی حتمی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ مشاورت میں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ڈیل کے لیے مفاہمتی (Compromise) سوچ کی موجودگی بہت ضروری ہو گی۔ میرکل کے مطابق کمپرومائز کی سوچ سے ہی ایسا کچھ حاصل ہو سکے گا جو وبا کی وجہ سے متاثر ہونے والے لوگوں کے اور یورپ کے مفاد میں بہتر ہو گا۔ اس تناظر میں جرمن چانسلر نے یورپی یونین سمٹ میں ہونے والی بات چیت کو بہت مشکل قرار دیا۔
انگیلا میرکل کی طرح یونین کی دوسری ریاستوں کے بعض لیڈروں نے بھی مشاورتی عمل میں حائل مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ ان رہنماؤں میں لیتھوینیا کے صدر گیٹاناس ناؤزیڈا اور ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک رُوٹے شامل ہیں۔ ان لیڈروں نے ریکوری پلان کے حوالے سے حوصلہ افزا نتائج کے فوری حصول میں مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ہالینڈ کے وزیر اعظم رُوٹے نے ملکی نشریاتی ادارے این او ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈیل طے ہونے کے حوالے سے بالکل پُرامید نہیں ہیں۔ سترہ جولائی سے شروع ہونے والی سمٹ میں ستائیس رکن ریاستوں کے لیڈروں نے یونین کے لیے سن 2021 سے 2027 تک کے بجٹ کی منظوری بھی دینی ہے۔ بجٹ کی منظوری کے علاوہ ساڑھے سات سو بلین یورو (856 بلین امریکی ڈالر) کورونا وائرس ریکوری پلان کو بھی منظور کیا جانا ہے۔
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zuchowicz
9 تصاویر1 | 9
دوسری جانب لیتھوینیا کے صدر ناؤزیڈا نے بھی کم و بیش مارک رُوٹے جیسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بجٹ کی ابتدائی تجاویز کو خاصا مناسب خیال کیا۔ ان لیڈران کی پژمرُدگی کے باوجود بعض یورپی رہنماؤں نے امید ظاہر کی ہے کہ وبا سے متاثرہ ممالک کے لیے تجویز کردہ فنڈ پر بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ اس تناظر میں ہسپانوی وزیر اعظم سانچیز پیڈرو کا کہنا ہے کہ یہ یورپی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریکوری پلان کو منظور کر کے وبا سے متاثرہ ملکوں کے شہریوں کو راحت فراہم کریں۔
برسلز پہنچنے پر پیڈرو سانچیز نے کہا کہ اسپین سربراہ اجلاس میں اس امید کے ساتھ شریک ہو رہا ہے کہ کوئی معاہدہ طے پائے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ یقینی طور پر اپنے ملک کے قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ ان کا یہ ببی کہنا تھا کہ امدادی فنڈ کے استعمال کے طریقہٴ کار کو بھی وضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں جمعرات سولہ جولائی کو برسلز پہنچ کر ابتدائی مذاکراتی عمل شروع کر چکے ہیں۔ وہ ڈچ وزیر اعظم رُوٹے سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سن 2021سے 2027 کے عرصے کے لیے ایک ٹریلین یورو کی منظوری فوری طور پر ممکن نہیں اور بات چیت طویل ہو سکتی ہیں۔