امریکا نے جمعہ اٹھارہ اکتوبر سے یورپی مصنوعات کی درآمد پر اضافی ٹیکسوں کا نفاذ کر دیا ہے۔ ان ٹیکسوں سے امریکا میں یورپی پنیر، زیتون اور دیگر مصنوعات کے مہنگے ہونے کا یقینی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
تصویر: Imago/Ralph Peters
اشتہار
امریکی صدر نے کچھ عرصہ قبل یورپی مصنوعات پر اضافی راہداری عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اب اُن کے احکامات کی روشنی میں امریکی وزارت خزانہ نے مختلف یورپی مصنوعات پر ساڑھے سات بلین امریکی ڈالر کے مساوی درآمدی ٹیکس کا نفاذ کر دیا ہے۔ یہ ٹیکس اٹھارہ اکتوبر سے نافذ العمل ہو گئے ہیں۔
واشنگٹن نے کچھ عرصہ قبل طیارہ ساز ادارے ایئر بس پر دی گئی رعایت کے خلاف جوابی اقدامات کا فیصلہ کیا تھا۔ اندازا ہے کہ امریکی خزانے کو یورپی طیارہ ساز کمپنی کو دی جانے والی رعایت کی مد میں ساڑھے سات بلین ڈالر کا گھاٹا ہوا تھا۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ثالثوں نے ہوائی جہاز بنانے والی یورپی کمپنی پر امریکا کی جانب سے اضافی ڈیوٹی لگانے کی اجازت دے دی ہے۔
عالمی ادارہٴ تجارت کی اجازت کے بعد ایئر بس کے تیار کردہ ہوائی جہازوں پر دس فیصد کی اضافی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ زراعت سے وابستہ مصنوعات پر پچیس فیصد درآمدی ٹیکس کا نفاذ بھی کیا گیا ہے۔
امریکی ٹیکسوں سے فرانسیسی شراب، اطالوی پنیر اور اسکاٹ لینڈ کی وہسکی کی قیمتیں امریکا میں بڑھ جائیں گیتصویر: Fotolia/Nick Freund
زرعی مصنوعات میں ڈیری پراڈکٹس بھی شامل ہیں۔ اس طرح فرانسیسی شراب، اطالوی پنیر اور اسکاٹ لینڈ کی وہسکی کی قیمتیں امریکا میں بڑھ جائیں گی۔
فرانسیسی وزیر اقتصادیات برونو لے میئر نے امریکا کی جانب سے یورپی مصنوعات پر اضافی ٹیکسوں کے نفاذ پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے اس اقدام کے سخت نتائج سے امریکی حکومت کو خبردار کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یورپی اقوام بھی اگلے مہینوں میں ایسے ہی جوابی اقدامات کریں گی۔ فرانسیسی وزیر اقتصادیات کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپی اقدامات عالمی ادارہٴ تجارت کے دائرہٴ کار میں رہتے ہوئے اٹھائے جائیں گے۔
رواں برس جولائی میں یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر نے اپنے امریکی دورے کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی اور اس میں یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاملات پر پائے جانے والے اختلافات پر خاص توجہ مرکوز کبی گئی تھی۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ صنعتی مصنوعات پر اضافی ٹیکس ختم کرنے کی دو طرفہ کوششیں کی جائیں گی۔
ع ح ⁄ ع ب (اے پی، اے ایف پی)
عام مصنوعات میں چھپے خطرات
یورپی کمیشن نے صارفین کے تحفظ سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ کھلونے ہوں، ملبوسات یا پھر میک اَپ کا سامان، بازار میں ناقص اور خطرناک مصنوعات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں زیادہ خطرناک مصنوعات کا سراغ
انتباہی نظام ریپیکس (Rapex) یعنی ریپڈ الرٹ سسٹم فار ڈینجرس نان فوڈ کنزیومر پراڈکٹس کی مدد سے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک آپس میں یورپی منڈی میں خطرناک مصنوعات سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ 2014ء میں کنٹرولرز نے یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ملکوں کے ساتھ ساتھ ناروے، آئس لینڈ اور لیخٹن اشٹائن میں 2435 مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگائی، یہ تعداد اُس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 71 زیادہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیا ریکارڈ
بہت سی مصنوعات میں ایسے خطرات چھپے ہوتے ہیں، جن کی صارفین کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یورپی کمیشن ہر سال اپنی ایک رپورٹ جاری کرتا ہے تاکہ یورپی صارفین کو صحت کے لیے مضر مصنوعات سے خبردار کیا جا سکے۔ یہاں ہم آپ کو محض چند ایک چیدہ چیدہ مثالیں دے رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/E. Dunand
بچوں کے لیے خاص طور پر خطرات
گڑیائیں، جو آگ پکڑ سکتی ہیں، ٹیڈی بیئر، جن میں استعمال کیے گئے مادے کینسر کا باعث بن سکتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر مشتمل کھلونے، جو بچوں کے لیے خاص طور پر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ کئی کھلونے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے بچوں کا دم گھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے اور کئی کے ٹکڑے ایسے تیز دھار ہوتے ہیں کہ بچے زخمی ہو سکتے ہیں۔ 2014ء میں بازار سے ہٹا لی گئی مصنوعات میں سب سے زیادہ یعنی اٹھائیس فیصد کھلونے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جسم کے لیے نقصان دہ ملبوسات
غیر محفوظ مصنوعات کے اعتبار سے 23 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر مختلف طرح کے ملبوسات اور جوتے وغیرہ رہے۔ بہت سے ملبوسات میں ایسے ضرر رساں کیمیائی مادے استعمال کیے گئے ہوتے ہیں کہ جن سے انسانی جلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک مادے جوتوں اور چمڑے سے بنی اشیاء میں پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انتہائی خطرناک
2014ء میں جن مصنوعات کو غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے بازار سے ہٹانے کا حکم دیا گیا، اُن کی نو فیصد تعداد گھریلو استعمال کی عام چیزوں پر مشتمل تھی۔ گرم ہونے والی مصنوعات میں اگر ناقص مادے استعمال کیے گئے ہوں تو اُنہیں آگ بھی لگ سکتی ہے۔ برقی آلات میں ناقص تاروں کے استعمال سے بجلی کا جھٹکا لگ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ضرر رساں درآمدات
گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی سب سے زیادہ خطرناک مصنوعات چین سے درآمد کی گئی تھیں۔ غیر محفوظ مصنوعات کی تقریباً دو تہائی تعداد کا تعلق چین سے بتایا گیا ہے تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین یورپ کو مصنوعات برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں بھی شامل ہے۔ غیر محفوظ مصنوعات کی چَودہ فیصد تعداد یورپ میں تیار ہوئی تھی، زیادہ تر جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور فرانس میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ کے لیے جلد خبردار کرنے والا نظام
یورپ بھر میں غیر محفوظ مصنوعات سے خبردار کرنے والا نظام ریپیکس 2003ء میں متعارف کروایا گیا تھا اور تب سے اب تک اُنیس ہزار تریانوے مصنوعات کا پتہ چلا کر اُن پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ صارفین کے تحفظ سے متعلق یورپی کمشنر ویرا یُورووا کہتی ہیں کہ یہ نظام صارفین کے تحفظ کے حوالے سے بہت مؤثر ثابت ہوا ہے۔