1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بار بار دہشت گردانہ حملے: فرانس میں اسلام سے متعلق چند حقائق

مقبول ملک14 جون 2016

بار بار مسلم عسکریت پسندوں کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے فرانس کی چھیاسٹھ ملین کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد پانچ ملین سے زائد ہے اور مسیحیت کے بعد اسلام اس یورپی ملک میں دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔

Frankreich Moschee in Lille
مسیحیت کے بعد اسلام اس یورپی ملک میں دوسرا سب سے بڑا مذہب ہےتصویر: picture-alliance/dpa/S. Mortagne

فرانس میں طنزیہ جریدے شارلی ایبدو کے دفاتر پر کیا جانے والا حملہ ہو، گزشتہ برس پیرس میں پانچ مختلف مقامات پر کی جانے والی مربوط دہشت گردانہ کارروائی یا پھر تازہ ترین واقعے میں پیرس کے نواح میں ایک تھانے کے انچارج اور اس کی بیوی کا خنجر کے پے در پے حملوں سے کیا جانے والا سفاکانہ دوہرا قتل، اس یورپی ملک کو گزشتہ کئی برسوں سے اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والےعسکریت پسندوں کے ہلاکت خیز حملوں کا سامنا ہے۔

یہ بات شاید زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ جرمنی کے ہمسایہ اس ملک کی 66 ملین کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد یقینی طور پر پانچ ملین سے زیادہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ آئینی طور پر سیکولر ریاست فرانس میں اسلام مسیحیت کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہب بھی ہے۔

فرانس میں اسلام اور مسلم آبادی سے متعلق پیش کیے جانے والے قومی اعداد و شمار کے ذرائع مختلف ہیں اور اسی لیے ان میں کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق شمالی افریقہ کی سابقہ فرانسیسی نوآبادیوں سے آنے والے تارکین وطن ہے، جن میں سے الجزائر، مراکش اور تیونس سب سے اہم ہیں۔

فرانسیسی مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد دارالحکومت پیرس، لِیوں، سٹراسبرگ اور مارسے جیسے شہروں یا ان کے نواحی علاقوں میں رہتی ہے۔ فرانسیسی مسلمانوں کی نمائندہ قومی تنظیم کا نام مسلم کونسل آف فرانس ہے، جو مختصراﹰ CFCM بھی کہلاتی ہے اور یہ 2003ء میں قائم کی گئی تھی۔

مسلم کونسل آف فرانس نہ صرف ملک میں نئی مساجد کی تعمیر کے معاملے میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے بلکہ وہ پیرس اور مارسے جیسے شہروں میں مفتیوں کی تقرری کی ذمے دار بھی ہے۔ اس کے علاوہ فرانس میں رمضان کا مہینہ کب شروع ہو گا یا کوئی مذہبی تہوار کب منایا جائے گا، اس کا تعین بھی یہی کونسل کرتی ہے۔

یورپی یونین کے رکن اس ملک میں ریاست کو مذہب سے علیحدہ رکھنے کے بہت سخت قانون کے تحت سرکاری دفتروں یا تعلیمی اداروں میں مسلم خواتین کی طرف سے سروں پر رومال باندھنے پر پابندی ہے۔ اپریل 2011 سے عوامی زندگی میں مسلم خواتین کی طرف سے مکمل برقعہ پہننا بھی ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی مسلم خاتون اپنے گھر سے مکمل برقعہ پہن کر باہر نکلے، تو اسے 150 یورو جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

پیرس میں مسلمانوں کی حلال گوشت کی ایک دکانتصویر: DW/E. Bryant

فرانس میں حالیہ مہینوں اور برسوں کے دوران مسلمانوں اور مسلم طرز زندگی سے متعلق جو معاملات عوامی سطح پر شدید بحث کی وجہ بنے، ان میں صرف حجاب اور برقعہ ہی واحد متنازعہ موضوع نہیں تھا۔ پچھلے چند ماہ کے دوران فرانسیسی عوامی اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے حلال خوراک اور کھانے پینے سے متعلق مذہبی احکامات پر عمل درآمد بھی ایک بڑا زیر بحث موضوع رہا ہے۔

جہاں تک خاندانی امور اور اقدار کا تعلق ہے تو فرانس میں مسلمانوں اور قدامت پسند مسیحیوں کی سوچ میں کئی معاملات میں قدر مشترک بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2013 میں جب ملک میں ہم جنس پرست افراد کو آپس میں قانونی طور پر شادی کرنے کی اجازت دینے کی متنازعہ تجویز پیش کی گئی تھی، تو اس کے خلاف مسلمانوں اور قدامت پسند مسیحیوں نے مل کر مختلف شہروں میں سڑکوں پر احتجاجی تحریک چلائی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں