یورپی ملک مقدونیہ کا نام اب جمہوریہ شمالی مقدونیہ ہو گا
13 جون 2018
جدید سیاسی تاریخ میں بہت کم ہوا ہے کہ کسی ملک کا نام ہی بدل دیا جائے۔ اب یورپی ملک مقدونیہ کا نام بدل دیا جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ یونان اور مقدونیہ کے مابین مقدونیہ کے نام سے متعلق عشروں پرانا تنازعہ بالآخر حل ہو گیا ہے۔
یونانی مظاہرین مقدونیہ کے ایک بینر اور یونان کے قومی پرچموں کے ساتھتصویر: Reuters/A. Avramidis
اشتہار
یونانی دارالحکومت ایتھنز اور مقدونیہ کے دارالحکومت سکوپیے سے بدھ تیرہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق سابق یوگوسلاویہ کی جمہوریہ مقدونیہ کے نام سے متعلق یورپی یونین کے رکن ملک یونان اور بلقان کی اس چھوٹی سی ریاست کے مابین پائے جانے والے شدید تنازعے میں ایک چوتھائی صدی سے بھی زائد عرصے بعد بالآخر اب ایک تصفیہ ہو گیا ہے۔
یہ بات پہلے منگل کی شام یونانی وزیر اعظم الیکسس سپراس نے ملکی دارالحکومت ایتھنز میں کہی، جس کی کچھ ہی دیر بعد سکوپیے میں ملکی حکومت کی طرف سے بھی اس کی تصدیق کر دی گئی۔ سپراس نے اعلان کیا کہ یونان اور مقدونیہ کے مابین ایک ’تاریخی اتفاق رائے‘ ہو گیا ہے۔
الیکسس سپراس نے یہ بات یونانی صدر کے ساتھ ایک ایسی ملاقات میں کہی، جو ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کی گئی اور جس پر پورے یونان میں عوام نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل سپراس نے منگل کے روز ہی جمہوریہ مقدونیہ کے وزیر اعظم زوران زائیو سے بات چیت بھی کی تھی۔
اس تاریخی ڈیل کے تحت سابق یوگوسلاویہ کی جمہوریہ مقدونیہ کا نیا سرکاری نام اب ’جمہویہ شمالی مقدونیہ‘ ہو گا۔ مقدونیہ اب تک جمہوریہ مقدونیہ کہلاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں اس کا سرکاری نام ’سابق یوگوسلاویہ کی جمہوریہ مقدونیہ‘ بھی عبوری طور پر اسی لیے لکھا گیا تھا کہ اس نام کے بارے میں ایتھنز اور سکوپیے کے مابین عشروں سے اختلافات پائے جاتے تھے۔
دارالحکومت سکوپیے میں سکندر اعظم کا ایک مجمسہ، پس منظر میں جمہوریہ شمالی مقدونیہ کا قومی پرچمتصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
مقدونیہ کے نام سے متعلق اس تنازعے کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ مقدونیہ بلقان کی کئی دیگر ریاستوں کی طرح مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین کی رکنیت بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یونان کے ساتھ تنازعے کے باعث، جو نیٹو اور یورپی یونین کا رکن بھی ہے، اس بارے میں کوئی پیش رفت ممکن ہی نہیں تھی۔
اس سلسلے میں سکوپیے میں ملکی وزیر اعظم زوران زائیو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’ہمارے ملک کا نیا نام ایک مصالحتی حل بھی ہے اور جغرافیائی طور پر ایک منطقی موقف بھی۔ اس تنازعے کے حل ہو جانے کے بعد ہم پہلے نیٹو اور پھر یورپی یونین کی رکنیت کی امید کرتے ہیں۔‘‘
اس ڈیل کی توثیق کے لیے اب مقدونیہ اور یونان دونوں ممالک کے قومی پارلیمانی اداروں کو بھی اس معاہدے کی منظوری دینا ہو گی۔ اس کے علاوہ مقدونیہ میں اس نام کی منظوری کے لیے ایک عوامی ریفرنڈم بھی کرایا جائے گا۔ مقدونیہ کے نام سے متعلق تنازعے کا آغاز 1991ء میں ہوا تھا جب سابق یوگوسلاویہ کی ریاست ٹوٹ کر کئی آزاد ریاستوں میں بٹ گئی تھی۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
یونان کو خود مختار جمہوریہ مقدونیہ کے نام پر اعتراض اس لیے تھا کہ مقدونیہ نام کا یونان کے شمال میں ایک صوبہ بھی ہے، جہاں زمانہ قبل از مسیح میں عظیم یونانی فاتح اسکندر اعظم پیدا ہوا تھا۔ یونان کو شکایت تھی کہ اس نام کو اپنے لیے منتخب کر لینے کے بعد مقدونیہ یونان سے اس کے صوبے مقدونیہ کے حوالے سے تاریخی میراث کو تقریباﹰ ’چھین لینے کی کوشش‘ کا مرتکب ہوا تھا اور یہی بات تاریخی حوالے سے بھی قابل قبول نہیں تھی۔
اب اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ اسکندر اعظم کی جائے پیدائش یونانی صوبہ مقدونیہ آئندہ بھی مقدونیہ ہی کہلائے گا جبکہ جمہوریہ مقدونیہ کا سرکاری نام مستقبل قریب میں ’جمہوریہ شمالی مقدونیہ‘ رکھ دیا جائے گا۔ اس پر سبھی براہ راست یا بالواسطہ فریق مطمئن ہیں، یعنی یونان، اس کا شمالی صوبہ مقدونیہ، جمہوریہ شمالی مقدونیہ، یونین یونین اور نیٹو بھی۔