یورپی پارلیمان میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا نیا حزب
مقبول ملک بیرنڈ ریگرٹ
14 جون 2019
یورپی پارلیمان کے گزشتہ ماہ ہونے والے انتخابات میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کے لیے عوامی حمایت میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا تھا اور اب ان سیاسی جماعتوں نے پارلیمان میں اپنے نئے حزب کی تشکیل نو بھی کر لی ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کے رکن 28 ممالک میں مئی میں ہونے والے الیکشن میں جس نئی یورپی پارلیمان کا انتخاب کیا گیا تھا، اس کا اولین اجلاس اب ہونے ہی والا ہے۔ اس اجلاس سے قبل ایوان میں نمائندگی کے حامل اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے انتہا پسند اور عوامیت پسند ارکان نے خود کو ایک نئے حزب کی صورت میں منظم کر لیا ہے۔
ان منتخب ارکان کی تعداد اگرچہ ماضی کے مقابلے میں نئی پارلیمان میں کافی زیادہ ہے تاہم یہ بات بھی طے ہے کہ وہ نئی پانچ سالہ پارلیمانی مدت میں یورپی یونین کی اس مقننہ کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی پر صرف محدود حد تک ہی اثر انداز ہو سکیں گے۔
فرانسیسی شہر اسٹراسبرگ میں یورپی پارلیمان کے اس نئے دھڑے نے خود کو اٹلی میں حکمران اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت 'لیگا‘ کی قیادت میں منظم کیا ہے اور اس میں مجموعی طور پر یونین کے رکن 28 میں سے نو ممالک سے تعلق رکھنے والی دائیں بازو کی قوم پسند، عوامیت پسند اور سخت گیر سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔
یہ نیا یورپی پارلیمانی حزب اطالوی عوامیت پسند جماعت 'لیگا‘ کے ایک منتخب رہنما مارکو زَینی کی قیادت میں قائم کیا گیا ہے، جنہوں نے اس دھڑے کی تشکیل کے بعد کی جانے والی تعارفی پریس کانفرنس میں یورپی یونین اور اس کی پالیسیوں سے متعلق اس دھڑے کے تنقیدی اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی۔
'یورپی سپر اسٹیٹ‘ کی مخالفت
اس پریس کانفرنس میں مارکو زَینی نے قوم پسندوں کے اس دھڑے کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ یہ حزب یورپی یونین کو آئندہ ایک 'یورپی سپر اسٹیٹ‘ بننے سے روکنے کی کوشش کرے گا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہے گا کہ مالی وسائل کے استعمال کے حوالے سے رکن ریاستوں کی خود مختاری کا زیادہ سے زیادہ احترام کیا جانا چاہیے اور یونین رکن ممالک کے داخلی معاملات میں بالکل کوئی مداخلت نہ کرے۔
مارکو زَینی ماضی میں اطالوی عوامیت پسند جماعت 'فائیو سٹار موومنٹ‘ کے رکن تھے لیکن پھر انہوں نے اپنی سیاسی ہمدردیاں تبدیل کرتے ہوئے انتہائی دائیں بازو کی پارٹی 'لیگا‘ یا لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ مارکو زَینی کی پارٹی کے سربراہ ماتیو سالوینی موجودہ مخلوط اطالوی حکومت میں وزیر خارجہ ہیں۔
یورپ میں دائیں بازو کی سرکردہ عوامیت پسند خواتین رہنما
ایک نئی تحقیق کے مطابق دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی عوامیت پسند یورپی سیاسی جماعتوں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے، یورپ میں دائیں بازو کی سرکردہ پاپولسٹ خواتین رہنما کون کون سی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فرانس کی مارین لے پین
مارین لے پین اپنی مہاجرین اور یورپی یونین مخالف سوچ کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں۔ وہ فرانس کی عوامیت پسند جماعت نیشنل ریلی (سابقہ نیشنل فرنٹ) کی سن 2011 سے قیادت کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت سے متعلق عوامی تاثر کو زیادہ اعتدال پسند معتدل بنانے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: Reuters/E. Gailard
جرمنی کی فراؤکے پیٹری
اے ایف ڈی کی سابقہ شریک سربراہ فراؤکے پیٹری کی مہاجرین اور مسلمان مخالف پالیسیوں نے سن 2017 کے انتخابات میں دائیں بازو کی اس جرمن عوامیت پسند پارٹی کو وفاقی پارلیمان میں پہنچنے میں مدد دی۔ تاہم الیکشن میں کامیابی کے فوری بعد پیٹری نے اے ایف ڈی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ اس جماعت میں موجود ان کے حریف اے ایف ڈی کو ایک بنیاد پرست جماعت بنانا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
جرمنی ہی کی ایلس وائڈل
فراؤکے پیٹری کے سن 2017 میں اے ایف ڈی سے الگ ہونے کے بعد سے ایلس وائڈل پارٹی کی شریک سربراہ ہیں۔ سن 2013 میں وائڈل کی جانب سے سامنے آنے والی ایک ای میل میں انہوں نے کہا تھا کہ جرمنی غیر ملکیوں بالخصوص عرب باشندوں کی ثقافتی یلغار کے تلے دبا ہوا ہے۔ وائڈل کی جماعت ہم جنس پرستوں کی آپس میں شادیوں کے خلاف ہے لیکن وائڈل ذاتی طور پر ایسے ہی ایک رشتے میں بندھی ہوئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
پولینڈ کی بیاٹا شیڈُوؤ
یہ خاتون پولینڈ کی نائب وزیر اعظم اور رائٹ وِنگ پاپولسٹ پارٹی ’لاء اینڈ جسٹس‘ کی نائب سربراہ ہیں۔ اس جماعت کو پولستانی پارلیمان میں اکثریت حاصل ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین کی جانب سے مہاجرین کی پوری یونین میں منصفانہ لیکن کوٹے کی بنیاد پر تقسیم کی پالیسی کی شدید مخالف ہے۔
تصویر: Getty Images
ناروے کی سِیو ژینسن
سِیو ژینسن ناروے کی سیاسی جماعت ’پروگریس پارٹی‘ کی سربراہ ہیں، یہ جماعت مرکز کی جانب جھکاؤ رکھنے والی مخلوط ملکی حکومت میں بھی شامل ہے۔ ژینسن کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں اور انہوں نے اسرائیل میں ناروے کا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹلی کی جورجیا میلونی
نیشنل کنزرویٹو برادرز آف اٹلی نامی پارٹی کی شریک بانی اور رہنما جورجیا میلونی انتہائی دائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے پندرہ برس کی عمر میں اٹلی کے نئے فاشسٹوں کی سماجی تحریک کے یوتھ ونگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ سن 2008 سے سن 2011 تک نوجوانوں کے امور کی وزیر بھی رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈنمارک کی پِیا کیئیرسگارد
پِیا کیئیرسگارد انتہائی دائیں باز وکی ڈینش پیپلز پارٹی کی شریک بانی ہیں۔ انہوں نے سن 1995 سے لےکر سن 2012 تک اس پارٹی کی قیادت کی۔ وہ مہاجرین مخالف سوچ کی حامل ہیں اور متنوع ثقافتوں کے خلاف اپنے شدید نوعیت کے نظریات کے باعث بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کا بنیادی سیاسی جھکاؤ ڈنمارک میں مہاجرین کی آمد پوری طرح روک دینے کی طرف ہے۔
تصویر: AP
7 تصاویر1 | 7
یورو: ہاں یا نہیں
اس پارلیمانی دھڑے میں شمالی یورپی ملک فن لینڈ کی سیاسی جماعت 'فِنز پارٹی‘ بھی شامل ہے، جس کے سربراہ یُوسی ہالا آہو نے اس موقع پر کہا کہ یورپی مشترکہ کرنسی یورو کو سرے سے ختم کر دیا جانا چاہیے اور یونین کے رکن 19 ممالک پر مشتمل جس کرنسی اتحاد کی رکن ریاستیں یورو کو اپنی مشترکہ کرنسی کے طور پر استعمال کر رہی ہیں، اسے سرے سے ہی تحلیل کر دیا جانا چاہیے۔
اس بارے میں جرمنی میں اسلام اور مہاجرین کی مخالف کرنے والی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت متبادل برائے جرمنی یا اے ایف ڈی کے ایک رہنما ژورگ موئتھن نے یورو کو مشترکہ کرنسی کے طور پر ختم کر دینے کی بات تو نہ کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ جرمنی یورو کی صورت میں یورپی مالیاتی اتحاد سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا رہا، جتنا کہ عام طور پر دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اس پارلیمانی دھڑے میں اٹلی، فرانس، جرمنی، فن لینڈ اور آسٹریا سمیت کل نو ممالک سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمانی ارکان شامل ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
پانچواں بڑا پارلیمانی دھڑا
یورپی پارلیمان میں دائیں بازو کے قوم پسندوں، انتہا پسندوں اور عوامیت پسندوں پر مشتمل یہ دھڑا ایوان کا پانچواں بڑا حزب ہے۔ اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 73 بنتی ہے اور اس دھڑے نے اپنا نام 'شناخت اور جمہوریت‘ رکھا ہے۔ اس دھڑے سے قبل پارلیمان کے باقی چار بڑے حزب یہ ہیں: کرسچین ڈیموکریٹس (179 ارکان)، سوشل ڈیموکریٹس (152 ارکان)، لبرل (110 ارکان) اور گرین (76 ارکان)۔
یونین کے دوست اور ناقد
نو منتخب یورپی پارلیمان یورپی یونین کا نواں جمہوری طور پر منتخب قانون ساز عوامی ادارہ ہے، جس کے ارکان کو سیاسی نظریات اور پارٹی شناخت کی بنیادوں پر دو بڑے اور واضح گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس نئی پارلیمان کے ارکان کی تعداد 751 ہے، جن میں سے 473 یورپی یونین کے 'دوست‘ ہیں جب کہ 251 یونین کے 'ناقد‘ یا 'مخالف‘ ہیں۔ مجموعی طور پر 27 ارکان ایسے بھی ہیں، جن کے بارے میں یہ واضح نہیں کہ وہ یورپی یونین کی حمایت کرتے ہیں یا اس بلاک پر تنقید۔
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔