یورپی پارلیمان: کاپی رائٹس قانون میں متنازعہ اصلاحات منظور
26 مارچ 2019
یورپی پارلیمان کے ارکان نے اکثریتی رائے سے یورپی کاپی رائٹس قانون میں جامع لیکن متنازعہ اصلاحات کی منظوری دے دی ہے۔ اس سلسلے میں مجوزہ مسودے میں کئی بار ترمیم کی گئی، جس کے بعد یورپی پارلیمان نے اس کی منظوری دے دی۔
اشتہار
اس ترمیمی قانون کے ساتھ یورپی یونین کے کاپی رائٹس سے متعلق جس قانون کو جدید تر بنا دیا گیا ہے، وہ بیس سال پرانا تھا اور یورپی پارلیمان میں آج منگل چھبیس مارچ کو ہونے والی رائے شماری سے کچھ دیر پہلے تک بھی یہ بات قطعی غیر یقینی تھی کہ آیا یہ قانونی بل ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل کر سکے گا۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
اس مسودہ قانون پر رائے شماری میں اسٹراسبرگ کی پارلیمان کے 348 ارکان نے اس کی حمایت کی جبکہ 274 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا اور 36 ارکان نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔ یورپی کاپی رائٹس قانون میں یہ اصلاحات بہت زیادہ متنازعہ بھی تھیں۔
جامع اصلاحات متنازعہ کیوں؟
اس قانونی بل کے خلاف گزشتہ دنوں کے دوران یورپی یونین کے رکن 28 ممالک میں سے 20 سے زیادہ ریاستوں میں کئی ملین شہریوں کی طرف سے بیسیوں بڑے بڑے شہروں میں بھرپور احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔ یورپی پارلیمان کی طرف سےمنظوری کے بعد اب اس بلاک کی رکن ریاستوں کو انفرادی طور پر بھی اس نئے قانون کی منظوری دینا ہو گی۔
اس نئے قانون کا مقصد ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کاپی رائٹس کا اس طرح تحفظ کرنا ہے کہ مختلف اشاعتی اور نشریاتی اداروں اور فنکاروں کے کاروباری حقوق اور حقوق دانش کی عوامی سطح پر نفی کو روکا جا سکے۔ اس قانون کی شق نمبر 11 کے تحت پوری یورپی یونین میں اب ایک ایسا ضابطہ نافذ ہو جائے گا، جس کے تحت کاپی رائٹس کے زمرے میں آنے والی تخلیقات کا مکمل کاروباری تحفظ کیا جا سکے گا۔
اس دوران ایسی جو تخلیقات اب تک گوگل یا دیگر بڑے آن لائن پلیٹ فارمز پر پہلے سے شائع ہو چکی ہیں، ان مضامین، موسیقی یا تصویروں وغیرہ کے لیے اب متعلقہ پلیٹ فارمز کو کاپی رائٹس کے حامل افراد اور اداروں کو ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔
اس کی ایک مثال جرمنی میں اشپیگل نامی جریدے کے آن لائن ایڈیشن کی طرف سے کئی سال سے لڑی جانے والی وہ قانونی جنگ بھی ہے، جو گوگل کے خلاف تھی۔ اس میں اشپیگل آن لائن کا موقف تھا کہ گوگل کی طرف سے اس کی ویب سائٹ پر خبروں کے لیے اس ادارے کا تحریری مواد تو استعمال کیا جاتا ہے، لیکن کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔
اس کے علاوہ اب اس نئے یورپی کاپی رائٹس قانون کے آرٹیکل 17 (گزشتہ قانون کے آرٹیکل 13) کے تحت گوگل کی ذیلی کمپنی یوٹیوب، فیس بک کی ذیلی کمپنی انسٹاگرام اور GitHub جیسی کمپنیوں کو اس بات کو بھی یقینی بنانا پڑے گا کہ ان پلیٹ فارمز کے صارفین اپنی طرف سے جو مواد اپ لوڈ کرتے ہیں، اس میں کاپی رائٹس کی کوئی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔
ایسی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ان بڑے بڑے آن لائن پلیٹ فارمز کو اپنے اپنے تکنیکی نظاموں میں ایسے آن لائن فلٹرز لگانا پڑیں گے، جو کاپی رائٹس کی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کا اپ لوڈ سے پہلے ہی پتہ چلا سکیں اور ایسے کسی بھی اپ لوڈ کو روک سکیں۔
کئی ملین کی تعداد میں عام صارفین اور سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے یورپی آن لائن پلیٹ فارمز اس نئے اور سخت تر کاپی رائٹس قانون کے خلاف اس لیے تھے کہ ان کے بقول ایسے سارے ہی ادارے بہت مہنگے اور نئے آن لائن فلٹرز خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ دوسری طرف عام صارفین کا کہنا یہ تھا کہ ایسا کرنا اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے مترادف ہو گا۔
اس پر یورپی پارلیمان کے ارکان نے اس نئے مسودہ قانون کی منظوری کے ساتھ جو جواب دیا ہے، وہ یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہر کسی کو حاصل ہے، جس کا ہر قیمت پر تحفظ بھی کیا جانا چاہیے، لیکن کسی بھی فنکار، ادارے یا کاپی رائٹس کے مالک فرد یا کمپنی کا بھی یہ قانونی حق ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی ان کے مالیاتی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور انہیں ان کے جائز آمدنی سے محروم نہ رکھا جائے۔
م م / ا ا / روئٹرز، ڈی پی اے
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔