1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمان کے انتخابات کے نتائج سے سیاسی زلزلہ برپا

10 جون 2024

یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی بڑی کامیابی کے بعد فرانس میں سیاسی زلزلہ آگیا۔ فرانسیسی صدر نے قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔

 انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے حامی پارٹی کی کامیابی پر جشن مناتے ہوئے
انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے حامی پارٹی کی کامیابی پر جشن مناتے ہوئےتصویر: Christoph Schmidt/dpa/picture alliance

یورپی پارلیمان کے انتخابات میں جہاں مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں مجموعی طورپر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں وہاں پورے یورپی بلاک میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے بھی بڑی کامیابی حاصل کی۔

ابتدائی نتائج کے مطابق27 رکنی یورپی یونین میں ہونے والے الیکشن میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے فرانس، آسٹریا اور اٹلی میں بڑی کامیابی حاصل کی اور یہ پہلے نمبر پر رہیں جبکہ جرمنی اور نیدرلینڈز میں یہ بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے والی پارٹیوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رہی۔

یورپی پارلیمان کے انتخابات کے بارے میں چند اہم معلومات

ماکروں کا انتہائی دائیں بازو کی سیاست سے انتباہ

انتخابات کے نتائج فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے لیے سیاسی زلزلہ ثابت ہوئے۔ انہوں نے ٹیلی ویژن پر اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا۔ انہوں نے کہا، ”میں نے از سر نو ووٹ کے زریعے اپنے پارلیمانی مستقبل کا انتخاب واپس آپ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔  اس لیے میں قومی اسمبلی کو تحلیل کررہا ہوں۔"

ماکروں کی حریف مارین لے پین اور جارڈن بارڈیلا کی قیادت والی نیشنل ریلی پارٹی کو حسب توقع زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ ابتدائی نتائج کے مطابق ان کی پارٹی نے 30 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے جو ماکروں کی جماعت کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد کا دو گنا سے زیادہ ہے۔

فرانس اور جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں ایک دوسرے سے جدا

یورپی یونین کی سیاسی جماعتوں نے ڈس انفارمیشن مخالف معاہدے پر دستخط کر دیے

تاہم چار روز تک جاری رہنے والے یورپی یونین کے پارلیمانی انتخابات کے سلسلے کی ووٹنگ  میں فرانس کے سوا دیگرملکوں میں سینٹر رائٹ پارٹیوں یا مرکزی دھارے کی جماعتوں نے اپنی مجموعی اکثریت برقرار رکھی۔

خیال رہے کہ 720 رکنی یورپی پارلیمنٹ کے لیے اراکین کو منتخب کرنے کے لیے 27 یورپی ملکوں کے 360 ملین سے زیادہ ووٹرز رائے دہی کے اہل تھے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ملکی انتخابات قبل از وقت کرانے کا اعلان کردیا ہےتصویر: Ludovic MARIN/AFP

ماکروں نے' ایک بڑا جوا' کھیلا ہے

ماکروں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”میں نے آپ کا پیغام، آپ کی فکرمندی کو سن لیا ہے اور میں ان کا جواب دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فرانس کو ایک واضح اکثریت کی ضرورت ہے تاکہ بہتر طورپر کام کیا جا سکے۔ فرانسیسی عوام کو اب اپنے اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر انتخاب کرنا چاہیے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے انتخابات کا اعلان کرکے جمہوریت کے اصولوں کے تئیں اپنی عہد پر قائم رہنے کا ثبوت دیا ہے۔

تاہم تھنک ٹینک یوریشیا گروپ میں یورپ کے مینیجنگ ڈائریکٹر مجتبیٰ رحمان نے کہا کہ ماکروں نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے۔ انہوں نے ایسی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں ایک دوسرے کی مخالف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے صدر اور وزیر اعظم ملک کو چلانے کے لیے کوئی راستہ تلاش کررہے ہوں، کہا، ”یہ ایک سنگین قسم کا خطرہ ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام، زیادہ تعطل اور زیادہ افراتفری اور بالآخر سیاسی نظام کے مکمل مفلوج ہونے کے امکانات  پیدا ہوسکتے ہیں۔"

انتخابات کے نتائج کو جرمن چانسلر اولاف شولس کی حکومت کے لیے ایک دھچکا بھی قرار دیا جارہا ہےتصویر: Annegret Hilse/REUTERS

 انتخابی نتائج جرمنی کی حکومت کے لیے 'بڑا دھچکا'

جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت میں اعتدال پسند سوشل ڈیموکریٹک پارٹی(ایس پی ڈی)،ماحول پسند گرین پارٹی الائنس 90 اور فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف پی ڈی شامل ہے۔ اتوار کو ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں کرسچن ڈیموکریٹک یونین(سی ڈی یو) اور کرسچن سوشل یونین(سی ایس یو) نے 30 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ 2019 ء کے مقابلے میں ان جماعتوں کو اس بار کچھ زیادہ ووٹ ملے ہیں جبکہ کو یورپی پارلیمان کے انتخاب میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD)، گرین پارٹی  اور فری ڈیموکریٹک پارٹی (FDP) پر مشتمل اتحادی حکومت کے مشترکہ ووٹ 31 فیصد رہے جو کہ 2019 ء کے مقابلے میں انہیں ملنے والے مشترکہ ووٹوں کی تعداد میں واضح کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

2024 کے یورپی انتخابات، دائیں بازو کی کامیابی کی پیش گوئی

اُدھر دائیں بازو کی انتہائی کٹر جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) انتخابات میں دوسرے نمبر رہی۔ لیکن اے ایف ڈی مشرقی جرمنی میں سر فہرست رہی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد یہ ایک بڑی سیاسی پیش رفت ہے۔ اسے جرمن چانسلر اولاف شولس کی حکومت کے لیے ایک دھچکا بھی قرار دیا جارہا ہے۔

جنوبی جرمن ریاست باویریا میں سی ڈی یو کی حلیف جرمن سینٹر رائٹ کرسچن سوشل یونین (CSU) کے رہنما مارکوس زؤئڈر نے اتحادی جماعتوں کی خراب کارکردگی کے بعد جرمن حکومت سے قبل از وقت انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

 زؤئڈر ، جو باویریا کے ریاستی وزیر اعلیٰ بھی ہیں، نے کہا،'' یہ موجودہ حکومت بنیادی طورپر ختم ہوچکی ہے اور اب یہا ں بھی فرانس کی طرح ہونا قبل از وقت انتخابات ہونے  چاہیں۔‘‘ خیال رہے کہ فرانسیسی صدر ماکروں نے انتخابی نتائج کے بعد ملک میں قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔

زؤئڈر کا مزید کہنا تھا، ''ہمارے ملک کو ایک نئے آغاز کی ضرورت ہے، اس لیے جلد از جلد نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔‘‘

خیال رہے کہ جرمنی میں گرچہ تینوں جماعتیں،ایس پی ڈی، سی ڈی یو اورسی ایس یومل کر حکومت سازی کرتی ہیں لیکن وہ انتخابات میں ایک ساتھ حصہ نہیں لیتیں اور یہ یورپی پارلیمنٹ کے مختلف گروپوں کی ممبر ہیں۔

نئی یورپی پارلیمنٹ کو آنے والے وقتوں میں جن اہم ترین چیلنجز کا سامنا ہوگا ان کا تعلق یوکرین میں روس کی جاری جنگ، امریکہ اور چین کے مابینگ کشیدگی اور اس کے  عالمی تجارتی منڈیوں پر اثرات، ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی ایمرجنسی اور ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہوجانے کی صورت میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال سے ہے۔

یورپین الیکشن کیا ہیں؟

02:08

This browser does not support the video element.

ج ا/ ک م  (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں