یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
شمشیر حیدر6 اپریل 2016
یورپی کمیشن نے چھ اپریل بدھ کے روز یورپ بھر میں سیاسی پناہ کے نئے اور متفقہ قوانین بنانے کی تجاویز پیش کر دیں۔ تاہم کچھ یورپی ممالک نے ان تجاویز پر فوری تنقید بھی شروع کر دی ہے۔
اشتہار
یورپی کمیشن کی جانب سے پیش کردہ ’ڈبلن قوانین‘ کے نام سے جانے جانے والے سیاسی پناہ کے موجودہ یورپی قوانین میں ترامیم کے خلاف چیک جمہوریہ کا فوری رد عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس معاملے پر یونین کی رکن ریاستوں میں اختلاف رائے کتنا زیادہ ہے۔
ڈبلن قوانین کے مطابق یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے والے پناہ کے متلاشی افراد صرف اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں جہاں سے وہ یونین کی حدود میں داخل ہوئے ہوں۔ ان قوانین کی وجہ سے غیر یورپی تارکین وطن کا سب سے زیادہ بوجھ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں پر واقع اٹلی اور یونان جیسے ممالک کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اس قانون کو منصفانہ اور قابل عمل بنانے کے لیے یورپی کمیشن نے چھ اپریل کو دو تجاویز پیش کیں۔ پہلی تجویز کے مطابق تارکین وطن کو یونان اور اٹلی جیسے ممالک سے نکال کر ایک کوٹے کے تحت دیگر یورپی ممالک منتقل کر دیا جائے گا۔ عارضی طور پر یورپ میں فی الوقت یہی قانون نافذ ہے تاہم اس پر عمل درآمد کی رفتار نہایت سست رہی ہے۔
دوسری تجویز میں کہا گیا ہے کہ تارکین وطن چاہے کسی بھی یورپی ملک میں پہنچیں، انہیں لازمی اور مستقل نظام کے ذریعے یونین کے ممالک میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
یونان میں پاکستانی تارکین وطن: موقف اور مجبوریوں کی وضاحت
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس اورامُوپولوس کا کہنا تھا، ’’دونوں صورتوں میں تارکین وطن کو یونین کے رکن ممالک میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ ہمیں اپنے نظام میں ذمہ داری کی منصفانہ تقسیم کے لیے یکجہتی پیدا کرنا ہو گی۔‘‘
چیک جمہوریہ کے وزیر داخلہ نے ان دونوں یورپی تجاویز پر فوری ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ’’سیاسی پناہ کے یورپی قوانین میں اصلاحات کے لیے پھر تارکین وطن کی لازمی تقسیم کی بات کی گئی ہے۔ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم یہ قبول نہیں کریں گے۔‘‘
یورپ میں مہاجرین کا بحران پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مختلف یورپی ممالک میں سیاسی پناہ دینے کے قوانین بھی مختلف ہیں۔ کئی ملکوں میں پناہ حاصل کرنے کے لیے قوانین نہایت نرم ہیں اور وہ ممالک معاشی طور پر بھی مستحکم ہیں۔ اسی وجہ سے زیادہ تر تارکین وطن جرمنی، ناروے اور سویڈن جیسے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ یورپی کمیشن نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ یورپ بھر میں سیاسی پناہ حاصل کرنےکے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں کمیشن کی ایک تجویز کے مطابق آئندہ یورپی یونین کو بحران زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو براہِ راست یورپ لا کر انہیں پناہ دینی چاہیے تاکہ وہ خطرناک راستے اختیار کرتے ہوئے خود یورپ کا رخ نہ کریں۔ اس منصوبے پر بھی یونین کی رکن ریاستوں کی جانب سے ملا جلا ردِ عمل دیکھا گیا ہے۔
یورپی کمیشن کی ایک اور تجویز میں کہا گیا ہے کہ یونین کے باہر سے یہاں آنے والے لوگوں کی یورپ میں بے قاعدہ نقل و حرکت روکنے کے لیے اسے قانونی طور پر جرم قرار دیا جائے۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔