یورپی کمیشن کا نیا صدر کون؟ میرکل اور ماکروں میں اختلافات
29 مئی 2019
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے یورپی کمیشن کے آئندہ صدر کے طور پر مانفرڈ ویبر کو امیدوار نامزد کیا ہے لیکن فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ اس اہم عہدے کے لیے کسی کا انتخاب ’خودکار‘ طریقے سے نہیں کیا جانا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Matthys
اشتہار
یورپی رہنماؤں نے کہا ہے کہ یورپی یونین کی اعلیٰ قیادت کے لیے امیدواروں کی نامزدگیوں کو جلد ہی حتمی شکل دے دی جائے گی۔ خبر رساں اداروں نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یورپی کمیشن کے نئے صدر اور دیگر اہم عہدوں کے لیے امیدوار یورپی سیاستدانوں کا انتخاب جلد ہی کر لیا جائے گا۔
یہ بیانات ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں، جب بالخصوص یورپی کمیشن کے نئے صدر کے انتخاب کے معاملے پر یونین کے دو اہم اور آپس میں قریبی اتحادی ممالک جرمنی اور فرانس کے مباین کچھ اختلافات بھی سامنے آئے ہیں۔
منگل اٹھائیس مئی کو برسلز میں ہوئی یورپی یونین کے ایک غیر رسمی سمٹ میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے یورپی کمیشن کے آئندہ صدر کے طور پر مانفرڈ ویبر کی امیدواری کی حمایت کی لیکن ماکروں کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی۔ یورپی پارلیمان کے الیکشن کے بعد اب یورپی سطح پر نئی قیادت چننے کی تیاریاں جاری ہیں۔ میرکل نے کہا کہ یورپی سیاستدانوں کو جلد ہی فیصلہ کر لینا چاہیے۔
میرکل نے برسلز میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ نئی یورپی پارلیمان کا اولین اجلاس جون میں ہونا ہے اور کوشش ہونا چاہیے کہ اس سے قبل ہی اہم فیصلے کر لیے جائیں۔
میرکل کے بقول جرمنی میں وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل قدامت پسندوں کا اتحاد اور سوشل ڈیموکریٹس اسی سیاسی عمل کی حمایت کر رہے ہیں، جس کے تحت پورپی الیکشن میں جیتنے والی پارٹی کا اعلیٰ امیدوار ہی یورپی کمیشن کے صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔
سن دو ہزار چودہ میں ژاں کلود ینکر کو اسی سیاسی فارمولے کے تحت یورپی کمیشن کا صدر چنا گیا تھا۔ تاہم فرانسیسی صدر ماکروں اس سیاسی عمل کے ناقد ہیں۔
مانفرڈ ویبر کے علاوہ یورپی کمیشن کے نائب صدر فرانس ٹمرمنز اور سبکدوش ہونے والی یورپی یونین کی مسابقت سے متعلقہ امور کی کمشنر مارگریٹا ویسٹاگر بھی یورپی کمیشن کی صدارت کے لیے دوڑ میں شامل ہیں۔ اس اہم عہدے کے علاوہ نئی یورپی پارلیمان کو یورپی یونین کے کونسل، پارلیمان، یورپی مرکزی بینک اور خارجہ امور کے سربراہان کا انتخاب بھی کرنا ہے۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔