یورپی کمیشن کی صدر کا یورپ کے لیے ’مارشل پلان‘ کا مطالبہ
5 اپریل 2020
یورپی یونین کے کمیشن کی جرمنی سے تعلق رکھنے والی خاتون صدر اُرزُولا فان ڈیئر لاین نے کورونا وائرس کے بحران کے تناظر میں یورپی معیشت کی جلد بحالی کے لیے ایک ’مارشل پلان‘ کا مطالبہ کر دیا ہے۔
اشتہار
فان ڈیئر لاین نے کہا کہ کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس نے جس برے طریقے سے یونین کے رکن ممالک کی معیشتوں کو متاثر کیا ہے، اس کے بعد پوری یورپی یونین کی اقتصادی بحالی کے لیے رکن ممالک کے قومی بجٹ منصوبوں میں نئی وسیع تر سرمایہ کاری لازمی ہو گئی ہے۔
اس سے قبل اسپین کے وزیر اعظم نے بھی یہ کہہ دیا تھا کہ یورپی یونین کی معیشت کو اس وقت 'جنگ کے دور کی معیشت‘ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، جس کے بعد اقتصادی بحالی کے ایک فوری لیکن جامع پروگرام کی ضرورت ہو گی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کا مارشل پلان
اس سلسلے میں متعدد یورپی رہنماؤں نے جس پروگرام کا مطالبہ کیا ہے، ان کے مطابق وہ اپنی مقصدیت میں تقریباﹰ ویسا ہی ہونا چاہیے، جیسا دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی یورپی ممالک کی معیشتوں کی بحالی کے لیے امریکا نے 'مارشل پلان‘ کے نام سے شروع کیا تھا۔ تب اس پروگرام پر 1948ء سے لے کر 1952ء تک عمل کیا گیا تھا۔
یورپی کمیشن کی صدر فان ڈیئر لاین نے جرمن اخبار 'وَیلٹ اَم زونٹاگ‘ میں آج شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا، ''ہمیں یورپ کے لیے ایک مارشل پلان کی ضرورت ہے۔‘‘
ساتھ ہی یورپی یونین کے انتظامی بازو کی جرمن سربراہ نے مزید لکھا کہ اب یورپی بجٹ اس طرح ترتیب دیا جانا چاہیے کہ وہ کورونا وائرس کے باعث پید اہونے والے بحرانی حالات کے تدارک کے لیے نپے تلے انداز میں مددگار ثابت ہو سکے۔
اُرزُولا فان ڈیئر لاین کے مطابق، ''آج ہمیں اربوں یورو کی جس نئی سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، وہ نہ صرف یورپی باشندوں کی مختلف نسلوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھی گی بلکہ اس طرح اس بلاک کے رکن ممالک میں ایک 'برادری اور ایک بڑے یورپی خاندان‘ کا حصہ ہونے کے احساس کو بھی تقویت دی جا سکے گی۔‘‘
جنگ کے دور کی معیشت
یورپی کمیشن کی صدر سے قبل جرمن اخبار فرانکفُرٹر الگمائنے سائٹُنگ میں شائع ہونے والے اپنے ایک اداریے میں اسپین کے وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے بھی یورپ کے لیے ایک نئے مارشل پلان کی حمایت کرتے ہوئے لکھا تھا، ''یورپ کو ایسے کسی نئے مارشل پلان کے علاوہ ایسے فوری اقدامات بھی کرنا چاہییں، کہ جیسے اسے فی زمانہ جنگی حالات کا سامنا ہو۔‘‘
ہسپانوی سربراہ حکومت نے لکھا، ''اگر کورونا وائرس کے لیے کوئی سرحدیں نہیں ہیں، تو پھر یورپی معیشت کی بحالی اور اس کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کے عمل کی بھی کوئی حدیں نہیں ہونا چاہییں۔‘‘
پیدرو سانچیز کے مطابق، ''یہی بحران ایک بہت مضبوط یورپ کی تعمیر نو کا بہترین موقع بھی ہے، جسے ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
م م / ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔