یورپی کمیشن کے صدر باروسو دوبارہ انتخاب کے قریب تر
15 ستمبر 2009يورپی پارليمنٹ ميں اس بارے ميں شديد بحث کے بعد پارليمانی دھڑوں ميں اس پر اتفاق ہوگيا ہے کہ باروسو خود کو دوبارہ انتخاب کے لئے پارليمان ميں پيش کريں گے۔ پرتگال کے قدامت پسند یوزے مانوئل باروسو کو يورپی کميشن کا دوبارہ صدر منتخب کرنے پر يورپی يونين کے سربراہان مملکت و حکومت جون میں ہی متفق ہوگئے تھے اور اب يہ کام يورپی پارليمان کو بھی انجام دينا ہے۔ پارلیمانی منظوری کے بغير 53 سالہ باروسو دوبارہ يورپی کميشن کے صدر کا عہدہ نہيں سنبھال سکتے۔
يورپی پارليمنٹ ميں گرين پارٹی کے حزب کی چيئر پرسن ریبيکا ہارمس نے باروسو کے دوبارہ انتخاب کی مخالفت کرتے ہوئے کہا:’’ميرے خيال ميں باروسو کو شٹراس برگ ميں کوئی واضح اکثريت نہيں ملے گی۔‘‘
شايد باروسو کو واقعی واضح اکثريت نہ مل سکے۔ ليکن انہيں اتنے ووٹ ضرور مل جائيں گے کہ وہ مزيد پانچ سال تک يورپی کميشن کے صدر کے عہدے پر فائز رہ سکيں۔ يورپی پارليمان کے سات پارليمانی دھڑوں سے باروسو کی پيشگی بات چيت سے يہ ظاہر ہوچکا ہے۔ قدامت پسند پارليمانی حزب کے 265 اراکين، 88 لبرل اراکين اور دائيں بازو کے يورپی يونين پر اعتراض کرنے والے کئی قدامت پسند اراکين ان کی حمايت کر رہے ہيں۔ قدامت پسندوں کو باروسو کے دوسرے دور صدارت ميں اقتصاديات کے لئے دوستانہ پاليسی، يورپی يونين ميں مزيد توسيع کی زيادہ سخت پاليسی اور يونين کی سرحدوں کی بہتر حفاظت کی اميد ہے، تاکہ غير قانونی طور پر غير ملکيوں کی آمد کو روکا جاسکے۔ يورپی کميشن کے صدر باروسو نے ترقی پسندوں سے وعدہ کيا ہے کہ مالياتی امور کی نگرانی کا ايک يورپی کميشن قائم کيا جائے گا اور بنيادی حقوق کی نگرانی کے لئے ايک کمشنر بھی مقرر کيا جائے گا۔ انہوں نے کہا: ’’ہمارے شہری توقع کرتے ہيں کہ ايک طاقتور يورپی يونين ہو اوراس کا ايک طاقتور کميشن ہو۔ انہيں اقتصادی بحران کے حل کی اميد ہے ليکن وہ اس کے طريقہء کار کے سلسلے ميں مزيد تاخير يا بحث کو پسند نہيں کرتے۔‘‘
جہاں باروسو خود کو يورپی کميشن کے ايک طاقتور صدر کے طور پر پيش کررہے ہيں وہاں ان کے ناقدين کا کہنا ہے کہ وہ اقتصادی بحران سے نکلنے، منصفانہ سماجی پاليسی يا آب و ہوا کے تحفظ جيسے اہم مسائل کے سلسلے ميں کافی عزم کا ثبوت نہيں ديتے۔ يورپی پارليمنٹ ميں بائيں بازو کی جماعتوں کے حزب نے باروسو کے قدامت پسندانہ، صنعت وتجارت کے لئے دوستانہ پروگرام سے سياسی اختلافات کا کھل کر اظہار کيا ہے۔ اس حزب کے قائد اور جرمن سياستدان بسکی نے کہا: ’’ہم نے باروسو سے بہت صاف انداز ميں بات کی اور ہم غصے کے بغير مگر خوشی سے کہتے ہيں کہ انہيں ہمارا کوئی ووٹ نہيں ملے گا۔‘‘
يورپی کميشن کے نئے صدر جيسے ہی اپنی ٹيم تشکيل ديں گے، يورپی پارليمان اس کی بھی منظوری کا فيصلہ کرے گی۔
رپورٹ: سوزانے ہَين / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک