یورپی کونسل کے ارکان کے خلاف شدید نوعیت کے کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ ان قریب پندرہ ارکان میں جرمن سیاست دان بھی شامل ہیں۔ شبہ ہے کہ ان پر اثر انداز ہونے کے لیے ایسی رقوم استعمال کی گئیں، جو آذربائیجان سے آئی تھیں۔
اشتہار
یورپی کونسل کی پارلیمانی اسمبلی میں، جسے دراصل خود بھی کرپشن کے خلاف جنگ کرنا چاہیے تھی، کئی ارکان پر شبہ ہے کہ انہوں نے ممکنہ طور پر نہ صرف رشوت کے طور پر رقوم وصول کیں بلکہ بالواسطہ فوائد کی صورت میں بھی ایسے مالی وسائل سے فائدہ اٹھایا۔
فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں تین غیر جانبدار ماہرین کی طرف سے پیش کردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یورپی کونسل کے متعدد موجودہ اور سابقہ ارکان، جن کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے، بدعنوانی کے زمرے میں آنے والی متعدد ایسی سرگرمیوں کے مرتکب ہوئے، جن کا فائدہ آذربائیجان کو پہنچا تھا۔
یورپی کونسل کے لیے غیر جانبدار ماہرین کے طور پر یہ رپورٹ انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے دو سابق ججوں نکولاس براٹسا اور الزابیتھ فیورا اور فرانس کے ایک معروف تفتیشی جج ژاں لوئی برُوگُوئیر نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔
اس رپورٹ میں یورپی کونسل کے جن ارکان کی پارلیمانی کارکردگی کے بارے میں شدید نوعیت کے شبہات اور سوالات پیدا ہو گئے ہیں، ان میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے اور جرمن صوبے باویریا کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو کے سیاستدان ایڈوآرڈ لِنٹنر بھی شامل ہیں۔
لِنٹنر ماضی میں وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور 1999ء سے لے کر 2010ء تک وہ یورپی کونسل کی پارلیمانی اسمبلی کے رکن بھی رہے تھے۔
200 سے زائد صفحات پر مشتمل اس تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جرمن سیاستدان لِنٹنر آذربائیجان کے لیے ’لابی کرنے والی کلیدی اہمیت کی حامل شخصیت‘ بھی رہے تھے۔
ان کے بارے میں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے 2012ء اور 2014ء کے درمیانی عرصے میں باکو سے آنے والے مجموعی طور پر آٹھ لاکھ بیس ہزار یورو وصول کیے، جو انہیں برطانیہ میں قائم تین نام نہاد فرموں کے ذریعے ادا کیے گئے تھے۔
جرمن تاریخ کے سب سے بڑے دیوالیے کی کہانی
ماضی میں یورپ کے سب سے بڑے ڈرگ اسٹور کے نیٹ ورک ’شلیکر‘ کے مالک انتون شلیکر اور ان کے بچوں کو ایک جرمن عدالت نے جیل بھیج دیا ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے پچاس ہزار سے زائد ملازمین پر مشتمل ’شلیکر ایمپائر‘ کیسے دیوالیہ ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner
ترقی کی پہلی سیڑھی
انتون شلیکر نے 1975 ء میں کرشہائم نامی علاقے میں اپنی پہلی ڈروگری مارکیٹ کھولی تھی۔ صرف دو ہی برسوں میں اس کی سو شاخیں کھل چکی تھیں۔ انتون نے نو سال بعد دعوی کیا تھا کہ ان کی ایک ہزار شلیکر شاپس ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک
1987ء میں شلیکر نے جرمنی سے باہر اپنے قدم جمانے کی ابتدا کی۔ 2007ء میں شلیکر کا دائرہ یورپ کے تیرہ ملکوں تک پھیل چکا تھا اور اس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 52 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ پورے یورپ میں شلیکر کی تقریباً دس ہزار شاخیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
الزامات
دفتر استغاثہ نے شلیکر ڈروگری اسٹور ( ادویات اور عام اشیاء کی دکان) پر صرف یہ الزام عائد نہیں کیا کہ انہوں نے اپنی مالی معاملات چھپائے ہیں بلکہ تمام چھتیس مختلف واقعات میں شلیکر نے ایسے اثاثے بنائے ہیں، جنہیں دیوالیہ میں شامل ہونا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat
فرد جرم
تین سال تک اشٹٹ گارٹ شہر میں استغاثہ نے شلیکر کے خلاف تفتیشی عمل جاری رکھا اور پھر گزشتہ برس اپریل میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ فرد جرم کی دستاویز 270 صفحات پر مبنی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dap/M.Murat
عدالتی فیصلہ
جرمن شہر اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے 72 سالہ انتون شلیکر اور ان کے دو بچوں لارس اور مائیکے شلیکر کو قید اور ان کی بیوی کو جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ انتون ’شلیکر ایمپائر‘ بہت محنت سے کھڑی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Warnack
اثاثے
ذرائع کے مطابق انتون شلیکر نے پچیس ملین یورو کے اثاثے بنائے ہیں۔ اس دوران ان کی اہلیہ، دونوں بچوں اور ان کے مالی معاملات کی نگرانی کرنے والے دو افراد کو بھی شامل تفتیش کیا گیا۔ ان پر بدعنوانی میں تعاون، دیوالیہ پن میں تاخیر اور فریب کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-P. Strobel
شلیکر جوڑا اور بدعنوانی
1998ء میں اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے شلیکر جوڑے کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں دس ماہ قید کی معطّل سزا سنائی تھی کیونکہ انہوں نے اپنے ایک ملازم کو قانون کے مطابق تنخواہ ادا نہیں کی تھی۔ اس کے چند سال بعد شلیکر کی انتظامیہ بھی اس وقت تنقید کی زد میں آ گئی جب ان کی جانب سے ملازمین کی نگرانی کے لیے غیر قانونی طور پر کیمرے نصب کیے گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa
سزا
دیوالیہ پن سے منسلک اگر جرائم بھی ہوں تو اس کی سزا پانچ سال تک کی قید ہے جبکہ سنیگن جرم کی صورت میں سزا دس سال بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Försterling
شلیکر بند
شلیکر کا شمار یورپ کی بڑی ڈروگری مارکیٹ میں ہوتا تھا۔ اس گروپ کی جانب جنوری 2012ء نے دیوالیہ پن کی درخواست جمع کروائی گئی تھی۔ شلیکر کو بچانے کی کوشش بے نتیجہ رہی۔ جون 2012ء میں شلیکر بند کر دی گئی تھی اور جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں پچاس ہزار سے زائد افراد بے روزگار ہو گئے تھے۔
تصویر: DW/ C. Ricking
9 تصاویر1 | 9
اس رپورٹ میں یورپی کونسل کے کئی دیگر ارکان کے علاوہ جس دوسری جرمن سیاسی شخصیت کا نام بھی آتا ہے، وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والی کارِن شٹرینس ہیں، جنہوں نے اسی طرح آذربائیجان سے بھیجی گئی رقوم وصول کیں۔
اس تفتیشی رپورٹ کے مطابق تیل کی دولت سے مالا مال، سابق سوویت یونین کی ریاست آذربائیجان نے جب سے 2001ء میں یورپی کونسل میں شمولیت اختیار کی ہے، تب سے یہ وسطی ایشیائی جمہوریہ اپنے لیے ’ہمدردوں کا ایک پورا نیٹ ورک‘ قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
یورپی کونسل کے ارکان کی مجموعی تعداد 47 ہے، جن میں یورپی یونین کے تمام رکن ممالک بھی شامل ہیں اور ان کے علاوہ روس اور ترکی جیسی بہت سی دیگر ریاستیں بھی۔
م م / ع ا / اے ایف پی، ڈی پی اے
سیپ بلاٹر کی کہانی تصاویر کی زبانی
سیپ بلاٹر کس طرح فٹ بال کی دنیا میں سب سے اونچے مقام پر پہنچے؟ آئیے ہم آپ کو تصاویر کے ذریعے فیفا کی ان کی سترہ سالہ سربراہی کی کہانی دکھاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Yusni
فٹ بال کے بے تاج بادشاہ کا استعفی
سیپ بلاٹر چار روز قبل ہی پانچویں مرتبہ فٹ بال کے نگران بین الاقوامی ادارے فیفا کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔ اس انتخاب کو متنازعہ قرار دیا گیا جا رہا تھا۔ تاہم اب وہ رنگ میں اپنا تولیہ پھینک کر فیفا کو افراتفری کے عالم میں چھوڑ گئے ہیں۔ ان کا سترہ سالہ کیریئر کئی اسکینڈلز کی زد میں رہا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Wiegmann
ناقابل یقین کیریئر
سوئس شہری سیپ بلاٹر 1975ء میں فیفا میں شامل ہوئے تھے۔ اس سے قبل سوئس آئس ہاکی کے مرکزی سیکرٹری کا عہدے ان کے پاس تھا۔ وہ کھیلوں کے سوئس ادارے اور سوئٹزرلینڈ کے ایک معروف گھڑی ساز ادارے کی ترجمانی بھی کر چکے ہیں۔ کھیلوں کی اشیاء بنانے والے ادارے ایڈیڈاس کے صدر آڈولف ڈالسر کے توسط سے وہ فیفا میں آئے اور 1981ء میں وہ اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری بن گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Weißbrod
منزل پر نظر
سترہ برس فیفا کے سابق سربراہ ژوآن ایولانژی کے جنرل سکریٹری رہنے کے بعد سیپ بلاٹر 1998ء میں فیفا کے نئے سربراہ بن گئے۔ انہوں نے ان انتخابات میں یورپی فٹ بال ایسوسی ایشن کے صدر لینارٹ یوہانسنز کو شکست دی تھی، جن کی کامیابی یقینی تصور کی جا رہی تھی۔ اس کے فوری بعد ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگیں تھیں کہ معاشیات کی ڈگری رکھنے والے بلاٹر نے اس منصب پر پہنچنے کے لیے ووٹ خریدے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بڑا نقصان
سیٹ بلاٹر پر تواتر کے ساتھ فیفا کے مالیاتی شعبے میں بد انتظامی کے الزامات لگتے رہے۔ صدر بننے کے ایک سال بعد ہی ان کے سیکرٹری جنرل مشیل زین روفینن نے کہا کہ بلاٹر کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے فیفا کو مارکیٹنگ کے شعبے میں سو ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ بلاٹر فیفا میں اپنے خلاف تحقیقات رکوانے میں کامیاب ہو گئے اور نتیجتاً مشیل زین روفینن کو فیفا سے نکال دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bally
سیپ بلاٹر جرمن امیدوں پر پورا اترے
2000ء کے موسم گرما میں سیپ بلاٹر نے جرمن فٹ بال کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔ اُس وقت فٹ بال کے عالمی کپ کے انعقاد کے حوالے سے جرمنی کی تمام تر امیدیں اُنہی سے وابستہ تھیں اور پھر انہوں نے 2006ء کے عالمی کپ کی میزبانی کے لیے جرمنی کے حق میں اعلان کیا۔ اس دوران بلاٹر اپنے عہدے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کام کرتے رہے اور جس کا نتیجہ 2002ء میں ان کے دوبارہ انتخاب کی صورت میں سامنے آیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Limina
مشرق وسطٰی کے ووٹ خریدنے کا الزام
فیفا کے قطر سے تعلق رکھنے والے خصوصی رکن محمد بن حمام کا شمار سیپ بلاٹر کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ 2011ء میں بن حمام بلاٹر کے خلاف فیفا کی سربراہی کے لیے انتخاب بھی لڑنا چاہتے تھے تاہم رشوت خوری کے الزام کے بعد انہیں اپنی نامزدگی واپس لینا پڑی۔ اس کے بعد انہوں نے فیفا کی رکنیت سے بھی استعفی دے دیا تھا اور بعد میں فیفا نے بن حمام پر عمر بھر کی پابندی عائد کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Yusni
دو اہم شخصیات
جرمن فٹ بال کی ایک اہم شخصیت فرنز بیکن باؤر اور سیٹ بلاٹر کے ایک وقت میں بہت گہرے تعلقات تھے۔ انہیں 2014ء میں فیفا نے معطّل کر دیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے جرمنی کے لیے ورلڈ کپ کی میزبانی کے حصول کے لیے رشوت دی تھی۔ ان دونوں کی دوستی میں اس وقت دراڑ پڑی جب بیکن باؤر نے اپنی بدعنوانی کو تسلیم کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Weissbrod
بلاٹر اور دنیا کی اہم شخصیات
سیپ بلاٹر فیفا کی سربراہی کے دوران دنیا کی اہم ترین شخصیات سے ملتے رہے، جن میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، مختلف ممالک کے سربراہاں مملکت اور پوپ شامل ہیں۔ 2004ء میں وہ جنوبی افریقہ گئے اور نیلسن منڈیلا سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے منڈیلا سے 2010ء کے عالمی کپ کی میزبانی کا وعدہ بھی کیا۔ یہ براعظم افریقہ میں منعقد ہونے والا فٹ بال کا پہلا عالمی کپ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Risch
افریقہ اور ایشیا میں بلاٹر کی پرستش
سیپ بلاٹر نے اپنے اختیارات کا بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور اس سے لطف اندوز بھی ہوئے۔ اس دوران وہ کبھی کبھار سرکاری مہمان بھی بننے۔ افریقہ اور ایشیا میں بہت زیادہ گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا جاتا رہا۔ ان دونوں براعظموں میں انہیں مسیحا اور مدر ٹیریسا کا امتزاج سمجھا جاتا تھا۔ بلاٹر نے بڑی رقوم عطیہ کیں، جس کے بدلے میں ایک دیوتا کی طرح ان کی پرستش کی جاتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Yusni
عقبی دروازے سے رخصت
امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کی جانب سے فیفا کے چند عہدیداروں کی خلاف رشوت ستانی کی تفتیش نے سیٹ بلاٹر کو عہدے چھوڑنے پر مجبور کیا۔ وہ ابھی اس تفتیش میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔ بلاٹر کا موقف ہے کہ رشوت یا بدعنوانی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔