یورپی ہائی ویز: الیکٹرک کاروں کے چارجنگ اسٹیشن، آغاز اسی سال
مقبول ملک ڈی پی اے
3 نومبر 2017
موٹر گاڑیاں تیار کرنے والی صنعت کی طرف سے مشترکہ طور پر کئی یورپی ممالک کی شاہراہوں پر الیکٹرک کاروں کو ری چارج کرنے کے لیے چارجنگ اسٹیشنوں کے ایک یورپی نیٹ ورک کی تعمیر پر ابتدائی کام اسی سال شروع کر دیا جائے گا۔
اشتہار
جنوبی جرمنی کے دو بڑے شہروں میونخ اور اشٹٹ گارٹ سے جمعہ تین نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق کئی مختلف یورپی ملکوں میں موٹر گاڑیاں تیار کرنے والے صنعتی اداروں نے مشترکہ طور پر یہ منصوبہ بنایا ہے کہ وہ اس براعظم میں الیکٹرک کاروں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ایک ایسا نیٹ ورک تیار کریں گے، جو بجلی سے چلنے والی کاروں کو ری چارج کرنے کے لیے چارجنگ اسٹیشنوں پر مشتمل ہو گا۔
ماہرین کے مطابق یورپی شاہراہوں پر ’ای۔کاروں‘ کے لیے چارجنگ اسٹیشن بھی اتنے ہی ضروری ہیں، جتنے پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں اور ٹرکوں کے لیے مختلف شہروں اور ہائی ویز پر جگہ جگہ بنائے گئے پٹرول پمپ۔
مجموعی طور پر یورپی آٹوموبائل انڈسٹری نے مختلف ممالک میں موٹر ویز پر ایسے 400 تیز رفتار چارجنگ اسٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے 20 اولین چارجنگ اسٹیشنوں کی تعمیر کا ابتدائی کام اسی سال شروع کر دیا جائے گا۔
یہ بات کار ساز اداروں بی ایم ڈبلیو، مرسیڈیز گاڑیاں بنانے والے کمپنی ڈائملر، فورڈ، جرمنی سے تعلق رکھنے والے سب سے بڑے یورپی کار ساز ادارے فوکس ویگن اور فوکس ویگن کے ذیلی اداروں آؤڈی اور پورشے کی طرف سے تین نومبر کو ایک مشترکہ بیان میں بتائی گئی۔
اس بارے میں تفصیلات جرمن شہروں اشٹٹ گارٹ اور میونخ سے اس لیے آئیں کہ مرسیڈیز گاڑیاں بنانے والے کمپنی ڈائلمر کا ہیڈکوارٹر اشٹٹ گارٹ میں اور بی ایم ڈبلیو کے صدر دفاتر میونخ میں ہیں۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سال جن بیس چارجنگ اسٹیشنوں کی تعمیر کا کام شروع کر دیا جائے گا، وہ جرمنی، ناروے اور آسٹریا کی مختلف ہائی ویز اور اہم موٹر وے کراسنگز پر بنائے جائیں گے۔
پرانی اور نایاب کاریں: پاکستانی امراء کا مہنگا شوق
پاکستان کے امیر طبقے میں کلاسیکی ماڈلز کی قدیم اور نایاب کاریں جمع کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ افغان بادشاہ کی رولز رائس ہو یا بھارت کے آخری وائسرائے کی کار، ان کے سامنے پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
تصویر: DW/S. Raheem
پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں پرانی کاریں رکھنے کے شوقین مالکان کی تنظیم "وینٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان" کے زیر اہتمام سالانہ کار شو کا انعقاد کیا گیا۔
تصویر: DW/S. Raheem
ہر سال کاروں کے شوقین خواتین و حضرات بڑی تعداد میں اس کار شو کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ اس کار شو میں شرکت کرنیوالوں کے لئے کوئی داخلی ٹکٹ بھی نہیں رکھا جاتا جبکہ شرکاء ان گاڑیوں میں بیٹھ کر یا ساتھ کھڑے ہو کر سیلفیاں بناتے اور تصاویر کھنچواتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Adil
”کیڈلاک فلی وڈ" امی یہ کار انیس سو انسٹھ میں امریکہ نے تیار کی تھی۔ اس کار کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کے سابق فوجی صدر ایوب خان کے زیر استعمال رہی ہے۔ اس کا منفرد اور پروقار ڈیزائن اسے اب بھی لوگوں کے لئے انتہائی جاذب نظر بنائے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
"منی کوپر" انیس سو چھپن میں سوئٹزر لینڈ میں پیدا ہونے والے تیل کے بحران کے حل کے طور پر الیکس ایسی گونیس کا ایک جواب تھا۔ بیالس سال تک تیار ہونیوالی اس کار کے چون لاکھ یونٹس فروخت کیے گئے۔
تصویر: DW/S. Raheem
انیس سو اٹھاون میں تیار کی گئی امریکن کمپنی "شیور لیٹ " کی اس گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ یہ کار اب بھی اتنی شاندار ہے کہ اس میں بیٹھ کر آپ کو اس کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
اس مہنگے شوق کا سب سے مشکل مرحلہ ان کاروں کے اسپیئر پارٹس کا حصول ہوتا ہے۔ ان کاروں کے اسپیئر پارٹس خصوصی طور پر امریکا یا پھر یورپی ملکوں سے منگوائے جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے غیر ملکی اخباروں میں اشتہارات بھی دیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash
انیس سو ستائیس میں تیار کی گئی برطانوی کار کمپنی کی کار "ٹرائمف سپر سیون ٹورر" کا اندرونی منظر اس کار کی سادگی کی گواہی دیتا ہے۔ پاکستان میں نایاب اور کلاسک کاروں کے کلب کے مطابق کاریں جمع کرنے والے افراد اس خطے میں گزشتہ صدی کی تاریخ کو محفوظ کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
کار شو کے منتظیمن کے کلب "وینٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان" کے ارکان کی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے متمول افراد کی ہے۔ پرانی گاڑیوں کو خریدنا اور پھر ان کی دیکھ بحال اور مرمت خاصا مہنگا کام ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کار شو کے منتظیمن کے کلب "وینٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان" کے ارکان کی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے متمول افراد کی ہے۔ پرانی گاڑیوں کو خریدنا اور پھر ان کی دیکھ بحال اور مرمت خاصا مہنگا کام ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کار شو میں رکھی گئی اکثر گاڑیوں کے ماڈل کافی پرانے ہونے کے باوجود مالکان نے انہیں خاصی بہتر حالت میں رکھا ہوا ہے۔ زیر نظر تصویر جرمن میڈ "فوکس ویگن بیٹل" کے انیس سو ساٹھ کے ماڈل کی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
اس کار شو میں رکھی ہوئی لال اور کالے رنگ کی سب سے پرانے ماڈل کی کار "ٹرائمف سپر سیون ٹورر" تھی جو انیس سو ستائیس میں تیار کی گئی۔ اس کار کی رفتار پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ اس کے ساتھ گہرے نیلے رنگ میں کھڑی فرانسیسی کار"پیجو" کا ماڈل انیس سو انسٹھ ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
جرمن کار کمپنی 'فوکس ویگن کی ایک بغیر چھت والی دلکش کار کی ڈرائیونگ سیٹ کا منظر۔ انیس سو پچپن میں جب اس کار کو فروخت کے لئے پیش کیا گیا تو اس کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے تھے۔
تصویر: DW/S. Raheem
انیس سو چالیس میں تیار کی گئی "بیوک" کار کی پیدوار کے پہلے ہی سال ایک لاکھ اٹھائیس ہزار سات سو یونٹ فروخت ہوئے۔ آٹھ سلنڈر اس گاڑی کی خاص بات اس کا منفرد ڈیزائیں اور کشادہ انٹیرئیر ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
راولپنڈی کی ایک سیاسی شخصیت اور سابق تحصیل ناظم راجہ حامد نواز بھی ہر دفعہ اپنے پرانے ماڈل کی گاڑیوں کے ساتھ اس کار شو میں نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ اپنی انیس سو چھیاسٹھ ماڈل شیورلٹ کار کے ہمراہ شو میں شریک ہوئے۔
تصویر: DW/S. Raheem
امریکی کمپنی شیور لیٹ نے انیس سو تریپن میں پہلی سپورٹس کار سیریز "کوروٹ" کے نام سے متعارف کرائی اور پھر اس کی مقبولیت کبھی بھی کم نہ ہو سکی۔ زیر نظر تصویر انیس سو بیاسی میں تیار کی گئی ایک "کوروٹ" سیریز کار کی ہے۔ اس گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ اس گاڑی کے انجن کی طاقت چھ ہزار سی سی ہے جس کی وجہ سے اس کی رفتار انتہائی تیز ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کار شو میں ایک ایسی گاڑی بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی جس کے مالک کا دعویٰ تھا کہ اس گاڑی کو انہوں نے مکمل طور پر اپنے ہاتھوں سے تیا ر کیا ہے یعنی کہ یہ ایک "ہینڈ میڈ گاڑی" ہونے کی وجہ سے لوگوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: DW/S. Raheem
16 تصاویر1 | 16
اس کے بعد اگلے سال ایسے مزید 80 چارجنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے، جن کے بعد یہ تعداد 100 ہو جائے گی۔
اسی طرح سن 2020ء تک ایسے الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنوں کی مجموعی تعداد بڑھا کر 400 کر دی جائے گی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تمام الیکٹرک اسٹیشن ایک ایسی کمپنی تیار کرے گی، جو خاص اسی مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے۔
اس کمپنی کا نام ’ایئونیٹی‘ (Ionity) ہے، جس کا صدر دفتر بھی میونخ ہی میں ہے۔ یہ کمپنی چاروں بڑے کار ساز اداروں بی ایم ڈبلیو، ڈائملر، فورڈ اور فوکس ویگن نے مل کر بنائی ہے، جس میں ان کا فی کس حصہ پچیس فیصد ہے۔
یہ نہیں بتایا گیا کہ اس منصوبے پر کل کتنی لاگت آئے گی لیکن یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ کوشش یہ ہو گی کہ ایسے تمام الیکٹرک کار چارجنگ اسٹیشن ایک دوسرے سے اوسطاﹰ 120 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم کیے جائیں۔ ان میں سے ہر اسٹیشن پر ایسے بہت سے چارجنگ پول ہوں گے، جن پر لگے پلگوں سے، مثال کے طور پر کسی عام موبائل فون کی طرح، الیکٹرک کاروں کو ری چارج کیا جا سکے گا۔