1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین اور ترکی کی ریفیوجی ڈیل خطرے میں

3 فروری 2020

2016 ء میں انقرہ اور برسلز نے ترکی سے مہاجرین کے یورپی یونین میں غیر قانونی داخلے کی روک تھام سے متعلق ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے سے دونوں ہی ناخوش ہیں، تاہم اس پر نظر ثانی بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

Rückführung der Flüchtlinge in die Türkei
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

 

یورپی اتحاد اور ترکی کے مابین چار سال قبل یعنی 2016 ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کو '' ریفیوجی ڈیل‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں طرفین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ غیرقانونی طور پر ترکی کے راستے یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کو اس عمل سے روکنے کے لیے ممکنہ کوششیں کی جائیں گی۔

یہ دراصل وہ وقت تھا جب مہاجرین کا سیلاب یورپی یونین کے ممالک کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا اور ان میں سے زیادہ تر ترکی کے رستے یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ معاہدے کے طے ہونے کے بعد شروع شروع میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ خاص طور سے ترکی کے ذریعے یونان میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد میں ڈرامائی کمی دیکھنے میں آئی، کیوں کہ ترکی نے نہایت موثر طریقے سے اپنی سرحدوں کو بند کر دیا تھا۔

یہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی۔ وجہ یہ تھی کہ ترکی دعویٰ کرتا ہے کہ یورپی یونین انقرہ حکومت کو وہ فنڈز مہیا کرنے میں ناکام رہی، جس کا اُس نے ترکی سے اس معاہدے کے تحت وعدہ کیا تھا۔ ترکی نے اس ڈیل کو ختم کرنے کی دھمکی تک دے ڈالی۔

دوسری جانب انقرہ اور برسلز کے مابین طے ہونے والی اس ڈیل کے موثر ہونے پر  یورپی یونین کی طرف سے بھی شکوک و شبہات کا اظہار ہونے لگا۔ چند یورپی رہنماؤں کی طرف سے یہاں تک کہا جانے لگا کہ برسلز اس ڈیل کے ذریعے انقرہ کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہا ہے۔

اس کے باوجود یورپ بھر کے سربراہان مملکت و حکومت کو یہ تشویش بھی تھی کہ اگر یہ معاہدہ ختم ہوتا ہے تو یورپ کی طرف ایک بار پھر مہاجرین کا سیلاب رواں ہو جائے گا، جس سے یورپی ممالک میں دائیں بازو اور عوامیت پسند تحریکوں کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔

جنوری میں چانسلر میرکل نے انقرہ میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کی تھی۔تصویر: picture-alliance/dpa/AP/T. Bozoglu

 

جرمن چانسلر کی دور اندیشی

جرمنی جولائی 2020ء میں یورپی یونین کی ششماہی صدارت سنبھالے گا۔ جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل یورپی یونین اور ترکی کے مابین اس معاہدے میں توسیع کی حمامی ہیں اور ممکنہ طور پر وہ چھ ماہ کی صدارت کو اس مقصد کے لیے استعمال کریں گی۔

جنوری میں چانسلر میرکل نے انقرہ میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کی تھی۔ اس دوران انہوں نے لاکھوں شامی مہاجرین کو ترکی میں پناہ دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور ترک حکومت کے کام کی تعریف کی تھی۔ مزید برآں ، انہوں نے مزید مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ مارچ 2016 کی ڈیل میں ترکی سے وعدہ کیا گیا تھا کہ یورپی یونین کئی سالوں کے دوران ترکی کو شامی مہاجرین کی دیکھ بھال میں مدد کے لیے 6 بلین یورو ادا کرے گی۔

مہاجرت سے متعلق امور کے ماہر اور محقق گیرارڈ کناؤس کا کہنا ہے، ''اگر (ترکی کو) مالی اعانت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے تو اس معاہدے کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''واضح طور پر انقرہ میں میرکل کا سب سے اہم بیان ترکی کو پناہ گزینوں کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کرنے کا امکان ہی تھا۔‘‘

تارکین وطن کی یونان اور مقدونیا کی سرحد عبور کرنے کی کوشش۔تصویر: Getty Images/AFP/R. Atanasovski

 

’سیاسی پناہ کا نظام ٹوٹ چکا ہے‘

لیکن کناؤس اس سے بھی زیادہ تشویشناک مسائل سے خبردار کر رہے ہیں، جن کے حل نہ ہونے کی صورت میں اس معاہدے کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''یورپی یونین یونانی جزیروں پر پہنچنے والے پناہ گزینوں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر انسانی اور منصفانہ موثر کارروائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔‘‘

گیرارڈ کناؤس کے مطابق اصولی طور پر، ''پناہ کا نظام ٹوٹ چکا ہے۔ فی الحال ایسے پناہ گزینوں کو ترکی واپس یھجے جانے کے امکانات صفر ہیں جن کی پناہ کی درخواستیں یورپی یونین کی طرف سے مسترد ہو چُکی ہیں۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ اگر یورپی یونین نے اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا تو ''ریفیو جی ڈیل‘‘ دم توڑ دے گی۔

جرمن حکومت نے برسلز اور انقرہ کے مابین موجودہ معاہدے کی توسیع کی کوشش میں یورپی یونین کے فیصلہ سازوں کے ساتھ متعدد مذاکرات میں بہت زیادہ وقت صرف کیا ہے۔ یہ مذاکرات  کروشیا کے ساتھ بھی ہوئے، جو فی الحال یورپی یونین کونسل کا صدر ہے۔ اس کے علاوہ برلن میں بند دروازوں کے پیچھے امور خارجہ اور سلامتی کی پالیسی کے لیے یورپی یونین کے اعلٰی نمائندے جوزف بورئل اور یوروپی یونین کے توسیعی کمشنر اولیویر ورہیلی  کے ساتھ بھی مذاکرات ہوئے ہیں۔

گیرارڈ کناؤس کا کہنا ہے کہ اگر یورپی یونین اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی تو معاہدہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔

پناہ گزینوں کے لیے لاس بوس جزیرے پر لگائے گئے عارضی کیمپ کی نا گفتہ بہ صورتحال۔تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

20  فروری کو خصوصی اجلاس

آیا میرکل کی 'ڈیل کی توسیع کی منصوبہ بندی‘ نتیجہ خیز ہو گی؟ اس کا انحصار پیسوں پر ہے۔ فی الحال، یورپی یونین کے رکن ممالک اگلے سات سالوں کے لیے یورپی یونین کے بجٹ پر مذاکرات کر رہے ہیں۔

برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کے بعد صورتحال اور بھی پیچیدہ ہو گئی ہے کیونکہ اب لندن یورپی یونین کے خزانے میں فنڈز فراہم نہیں کرے گا۔ سربراہان مملکت اور حکومت کے مابین اتفاق رائے کے حصول کے لیے، یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے 20 فروری کو برسلز میں ایک خصوصی سربراہی اجلاس بلایا ہے۔ سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کا ایک اہم موضوع یہی ہوگا کہ آیا پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ترکی کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انقرہ کو مزید اربوں یورو کی رقم فراہم کی جائے گی۔

ک ر/ ک م/ ش ح

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں